مطلقہ اور بیوہ کہاں جائیں . تحریر : سیدہ بخاری

0
56

لوگ بہت سی معاشرتی برائیوں پر آواز اٹھاتے ہیں، کبھی جہیز لینے کے خلاف ، کم عمری میں شادی کے خلاف، کبھی چائلڈ لیبر کے خلاف تو کبھی والدین کو اولڈ ہوم میں داخل کروانے کے خلاف، بچوں اور بچیوں سے جنسی ذیادتی کے خلاف، یہ سب بہت اچھا ہے کہ ان معاشرتی برائیوں کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی جائے بلکہ انکے سدباب کیلئے موثر اقدامات بھی کئے جائیں لیکن آج میں جس موضوع پر لکھ رہی ہوں اس پر کہیں بات نہیں ہوتی، اور وہ ہیں شادی کے بعد ناموافق حالات کی وجہ سے اپنے میکے کی دہلیز پر واپس آ کر بیٹھ جانے والی طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکیوں کے دکھ، وہ بدقسمت لڑکیاں جو سسرال کے جہنم سے نکل کر جب ماں باپ کی دہلیز پر آتی ہیں تو انکو خوش آمدید نہیں کیا جاتا بلکہ مصیبت اور بوجھ تصورکیا جاتا ہے، اس چیزپرشکر نہیں کیا جاتا کہ بیٹی ذہنی مریضہ بننے سے بچ گئی اورصحیح سلامت آپکو واپس مل گئی۔ پھر ہمارا معاشرہ انکے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے. جب یہ بدقسمت لڑکیاں پھر سے گھر بسانے کی آس میں نیا ہمسفر تلاش کرنے کی کوشش کریں تو اس میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بھی ایک الگ داستان ہے، میں نے جو سروے کیا اس میں ایک طلاق یافتہ مرد کو کنواری لڑکی کا رشتہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے لیکن ایک طلاق یافتہ یا بیوہ کو ایسا رشتہ ملا ہو یہ شاذو نادر ہی دیکھا گیا ہے۔

کیا ایک مطلقہ یا بیوہ اس بات کا حق نہیں رکھتی کہ اسکو اسکی عمر کے مطابق اچھا ہمسفر مل سکے؟
کیا انکے نصیب میں بس پانچ بچوں کا ادھیڑ عمر باپ ہی ہوتا ہے جسکے بچوں کی ساری عمر خدمت کرنے کے باوجود بھی وہ سوتیلی کا ٹیگ سر پر سجائے پھرتی ہے؟
ہمارے معاشرے میں مردوں کی نا انصافیوں اور عورتوں کے غلط رویوں، حسد اور عدم برداشت کیوجہ سے دوسری شادی بھی ایک گناہ کبیرہ بن کر رہ گئی ہے ورنہ اس میں کیا مضائقہ ہے کہ ایک صاحب حیثیت مرد انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے ایسی خواتین سے نکاح ثانی کریں جو کہ عرب میں عام رواج ہے، جہاں مطلقہ اور بیوہ خواتین کو دوسری شادی کے لئے عمریں گلانی نہیں پڑتیں۔
طلاق ہونے سے ذندگی ختم نہیں ہوتی لیکن ہمارے معاشرے میں تصور یہی ہے کہ اگر ایک لڑکی کو طلاق ہوئی ہو تو وہ اپنی تمام حسرتوں کو دفن کرتے ہوئے کسی بھی ایسے مرد کیلئے حامی بھرے جس کو کہ اسکا دل ماننے کو بھی تیار نہ ہو۔
لیکن اس پر ہمارے ہاں کوئی بات نہیں کرتا، اپنے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی ان مجبور بے بس لڑکیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا جنکی آنکھیں اچھے رشتے کی راہ تکتے ویران ہو جاتی ہیں اور پھر مجبورا انکے حصے میں دوگنی عمر کا مرد ہی آتا ہے۔

ایک مطلقہ /بیوہ لڑکی اس بات کا پورا حق رکھتی ہے کہ اسکو اچھا ہمسفر ملے اور وہ اچھی ذندگی گزارے جیسا کہ کسی بھی عام لڑکی کا حق ہے۔ طلاق سے کوئی لڑکی اچھوت نہیں بن جاتی نہ ہی اس میں کوئی ایسی نامناسب تبدیلی واقعہ ہو جاتی ہے کہ اس سے شادی کرنے کو غلط سمجھا جائے، ہمیں اپنے معاشرے سے ان فرسودہ ،جاہلانہ اور ہندوانہ رواجوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اسکے لئے کسی کو تو پہلا قدم اٹھانا ہوگا۔

Leave a reply