شاہینو سر اٹھا کے جیو  تحریر غلام مرتضی

0
42


9 /11 کے بعد  دنیا کرکٹ نے پاکستان میں  دہشت گردی کی آڑ میں چھپ کر  سیکورٹی کا بہانہ بنا کر پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا ۔ یہ کرکٹ فین کے لئے کوئی حوصلہ افزا بات نہیں تھی ۔ لیکن اسی عرصہ میں پاکستانی کرکٹ اسٹارز دیار غیر  میں کھیل کر سبز ہلالی پرچم بلند کرتے رہے ۔ گزشتہ 21 سال سے پاکستان گراونڈ ویران پڑے ہیں ۔کرکٹ کے متوالے اپنے اسٹارز کو اپنے ہوم گروانڈ پر حوصلہ افزائی کرنے کےلئے ترس گئے ہیں  ۔میں سلام پیش کرتا ہوں اپنے کھیل کے سفیروں کو جنہوں نے  اس کا منہ توڑ جواب دینے کےلئے میدان میں ڈٹے رہے ۔کبھی مصباح الحق کی صورت میں کبھی یونس خان کبھی آفریدی کی شکل میں، پاکستانی ٹیم نے گزشتہ ان 21 سالوں  میں ہوم  گراونڈ  خشک ہونے کے  باوجود بڑے بڑے ایونٹ جیتے بھی ہیں اور بڑی بڑی ٹیمز کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر شکست بھی  دی ہے ۔ 2007 کے پہلے ایڈیشن کا فائنل کھیلا ۔پھر 2009 کے دوسرے  ایڈیشن میں یونس خان کی قیادت میں ۔ٹرافی فضا میں بلند کی ،وقت گزرتا گیا پاکستان نے اپنا سفر جاری رکھا ۔2017 میں انگلینڈ میں مایوس قوم کو توقعات کے برعکس پاکستان نے فائنل میں سرفراز کی قیادت میں بھارت کو شکست فاش دیکر بڑے بڑے کرکٹ کے پنڈتوں کو حیران کر دیا،  وہ چمپیئن ٹرافی کسی اکیلے کھلاڑی نے نہیں جیتی تھی بلکہ سب نے جیت میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔اس میں ایک نام حسن علی کا بھی تھا۔

حسن علی کسی تعارف کے محتاج نہیں  گلی کوچوں میں کرکٹ کھیل کر دنیا کرکٹ کے افق پر نمودار ہوئے ۔2جولائی 1994 میں منڈی بہاؤالدین میں پیدا ہونے والے نوجوان  تیز گیند بازی سے بڑے بڑے بلے بازوں  کے پاوں اکھاڑ کر رکھ دئیے ۔حسن علی کا وکٹ لینے کے بعد جشن میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور تماشائیوں نے بھر پور داد دی ،انہیں مسٹر جنریٹر بھی کہا جاتا ہے ۔سیلیکٹر نے 2017کے چمپیئن ٹرافی کے اسکواڈ میں جگہ دی ۔حسن علی نے اس موقع کا  بھرپور فائدہ اٹھایا ۔اپنی سلیکشن کو 13 وکٹ لیکر ثابت کردیا پاکستان میں ٹیلنٹ کی  کوئی کمی نہیں ہے کمی ہے صرف بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی ۔حسن علی نے چمپیئن ٹرافی میں 5میچ کھیل کر  13 وکٹ لیئے ۔چمپیئن ٹرافی کا بہترین کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل کیا ۔ یہ پاکستان کےلئے حسن علی کےلئے  اور پاکستانی قوم کےلئے ایک اعزاز بات ہے ۔وقت  ایک جیسا نہیں رہتا دوبئی میں آسٹریلیا کے ہاتھوں سیمی فائنل میں  شکست کے بعد کچھ لوگوں نے   ساری ذمہ داری حسن علی  پر ڈال رہے ہیں ۔صرف ایک کیچ نے حسن علی کو ہیرو سے زیرو بنا دیا ۔افسوس مجھ سمیت پوری قوم کو ہے "کاش”حسن علی وہ کیچ پکڑ لیتے  نتیجہ کچھ اور ہوتا ،گرین شرٹس اس ٹورنامنٹ میں چمپئن کی طرح کھیلے اور مجھے فخر ہے گرین شرٹس کی پرفارمنس پر اور ہمیں ہونا چاہیے ۔ٹاس ہارنے کے بعد بابر اعظم اور رضوان نے بہت اچھا آغاز فراہم کیا ایک بڑا اسکور کھڑا کیا جا سکتا تھا بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا رضوان اور فخر زمان کی نصف سنچری کی بدولت 176 رنز بنائے آسٹریلیا نے مطلوبہ ہدف  ایک اورقبل5وکٹ  پر مکمل کر لیا ۔
آسٹریلیا بڑی ٹیم ہے ۔پریشر میں اچھا کھیل گئے شکست کے بعد گرین شرٹس کا سفر تمام ہوا
شکست کے بعد  حسن علی پر تنقید کے نشتر چلائے گئے ،انہیں برا بھلا کہا گیا بہت سی گالیوں کے ساتھ ان کے والدین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔مجھے  اس وقت حیرت ہوئی جب  حقیقت ٹی وی نے بہت غلیظ زبان استعمال کی اپنے ہیروز کی تذلیل کی۔ کیا حسن علی نے ایسا جان بوجھ کر کیا ؟۔ہر گز نہیں۔اس کی آنکھیں اس بات کی گواہ ہیں کوشش کے باوجود وہ پاکستان کےلئے کچھ نہ کرسکا ۔کیا ہم جیت میں اپنے ہیروز کو سپورٹ کریں گے ہار میں کیوں نہیں،  زندہ قومیں اپنے ہیروز کی تذلیل نہیں بلکہ ہار میں ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں ، ہمیں بطور قوم اپنے ہیروز کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے،   جس طرح جیت میں ان کے ساتھ تھے ۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اس  صدمہ سے باہر نکل سکیں تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکیں   ۔پاکستان زندہ باد

Leave a reply