شاکر ساکوں معاف چا کر! تحریر زکیہ نیر

0
29

ارمان ہے شاکر ایں گَل دا
ساڈا یار ہوندا اَساں کیوں رُلدے ۔۔۔
شاکر شجاع آبادی ادب کی دنیا کا ایسا ستارہ جسکے بنا شاید ہی سرائیکی شعر کی منزل تک کوئی پہنچ سکے ہیرے جیسے شعر لکھنے والا سونے جیسے گیتوں کا خالق تخیل اتنا قیمتی کہ شعر شعر انمول آج انہیں ایک موٹر سائیکل پر ایک کپڑے سے بندھا دیکھا یعنی ادب کا امیر آج اتنا غریب ہوا کہ کسی کرائے کی گاڑی تک میں بیٹھنے کو پیسے نہیں جیب خالی اور مرض مہنگا ۔۔۔ایسے میں سرائیکی ادب کی پہچان شاکر کو زمانے کے رحم وکرم پہ رُلتے دیکھا۔۔۔جب سے ویڈیو دیکھی سمجھ نہیں آرہی کہ کس سے گلہ کروں کس کو دہائی دوں کونسا ایسا ادارہ ہے جو فنکاروں کی حالت زار پہ انہیں سہارا دیتا ہے وہ فنکار جو اپنے فن سے لاکھوں دلوں میں گھر کرتے ہیں وہ در بدر کیوں ہیں کہاں شاکر کی عرضی لے کر جاؤں۔
شاکر شجاع آبادی کا اصل نام  شفیع محمد شجاع آبادی ہے جبکہ تخلص شاکر۔۔۔ان کا تعلق ملتان سے ستر کلو میٹر دور شجاع آباد کے ایک گاؤں راجہ رام سے ہےشاکر 1968 میں پیدا ہوئے 1986 سے باقاعدہ شاعری کر رہے ہیں نصابی تعلیم نہ ہونے کیوجہ سے وہ کتابیں نہیں پڑھ سکے مگر شاعری انہوں نے ریڈیو سن کر سیکھی وہ سرائیکی خطے میں پیدا ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ سرائیکی عوام کو محرومیوں میں رکھا گیا اور وہ اپنی شاعری کے زریعے انکی محرومیوں کو اعلیٰ ایوانوں تک پہنچائیں گے۔۔انہیں عشق کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے انہوں نے ساری زندگی غربت دیکھی انکے شعروں کو سراہا ضرور گیا جس پر انہیں کئی ایوارڈز بھی دئیے گئے مگر حالات بدلنے کی نہ کوشش کی گئی نہ ہی اس بارے سوچا گیا۔
ہِک شاکر تھی برباد گئے
ڈوجھے تبصرے کھا گئے لوکاں دے۔
انکے دوہڑے کئی سیاستدان اپنے جلسوں میں پڑھتے رہے ایک بار تو مریم نواز صاحبہ نے خود کو انکی مداح بھی کہا دو بار صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا انکی تصانیف میں کلام شاکر،پیلے پتر،پتھر موم،
لہو دا عرق،شاکر دے ڈوہڑے،شاکر دے قطعے،بلدیاں ہنجوں،پتہ لگ ویندے،شاکر دے گیت،شاکر دیاں غزلاں،منافقاں توں خدا بچاوے،اور شاکر کی اردو غزلیں شامل ہیں۔۔انہی سخی لکھاری بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا شاعر جسے کبھی کوئی چاہ نہ رہی لوگ کہتے شاکر کسی وزیر مشیر سے بیٹوں کی نوکری ہی مانگ لو مگر وہ شاکر ہی کیا جو بے نیازی میں سر نہ جھٹک دے  کہتا حاکمو جس حال میں بھی رکھو شاکر شاکر ہی رہے گا اپنی ساری زندگی میں کبھی شاکر شجاع نے کسی کی شان میں قصیدے نہ لکھے نہ ہی کسی کے لیے تعریفی کلمات کہے۔۔
بے وزنی ہیں تیڈی مرضی ہے بھانویں پا اچ پا بھانویں سِر اچ پا
یا چَن دی چٹی چاندنی وچ بھانویں رات دے سخت ہنیر اچ پا
پا کہیں دشمن دی فوتگی تے یا جھُمر دے کیں پھیر اچ پا
راہ رُلدے شاکر کنگن ہیں بھانویں ہتھ اچ پا بھانویں پیر اچ پا۔
بدقسمتی سے شاکر شجاع آبادی پہلے فنکار نہیں جو حکومتی بے حسی کے حصار میں ہیں یہاں کئی فنکار جو مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کرنے میں اپنے فن کا  نقطہ  نقطہ دان کیا جن کے فن سے لوگ محظوظ ہوتے رہے مگر جب بھی ان جگمگاتے ستاروں پہ برا وقت آیا ریاست نے کمر ہی دکھائی کئی فنکار غربت اور تنگدستی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے۔۔۔حکومتیں آتی رہیں جاتی رہیں مگران لوگوں کے لیے کوئی ایسا فنڈ نہیں رکھا جاتا کہ جب ان پر بیماری یا کوئی مصیبت کی گھڑی آئے تو یہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں نہ ہی انکی فلاح کے لیے کوئی ادارہ قائم کرنے کا خیال آیا۔۔۔انکا حق بنتا ہے کہ انہیں انکے فن کاصلہ ریاست کی جانب سے دیا جائے بے حسی کی انتہاء ہے شاکر کی حالت زار دیکھ کر سوال تو جنم لیتے ہیں کہ کیا اس مملکت کے تمام مالی وسائل امراء اور حکمرانوں کے لئے ہیں کیا اس بے بس اور غریب شاعر کا اس ملک پر کوئی حق نہیں ہے دعوے تو ہر بار سینہ تان کے کیے جاتے ہیں کہ کلچر فنڈز میں ادب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی حق ادا ہونگے  مگر شاکر جیسوں کی سسکتی زندگی دیکھ کر صرف سینہ ہی پیٹا جاسکتا ہے
بندے ڈیکھ کہ روندیں زندگی کوں
میکوں ڈیکھ کہ زندگی رو پئی ہے۔
شاکر شجاع آبادی صاحب ہم شرمندہ ہیں ہمیں چوہتر سال گزرنے کے بعد بھی آپ جیسے انمول فنکاروں کو عزت اور احترام دینا نہ آیا جو اس دھرتی ماں کی آبرو میں جھل مل کرتے ستارے رہے میری حکمرانوں سے ہاتھ جوڑ کر فریاد ہے شاکر اور اس جیسے کئی فنکار لوگ کسمپرسی میں حیاتی بسر کر رہے ہیں اٹھیے اور پہنچیے انکے آس کے جھونپڑوں میں اور دیکھیے جو زیست وہ گزار رہے اسکے حقدار ہیں کیا۔۔۔پھر کل کو جب وہ نہیں رہیں گے تو آپ انکے نام پر سیمینارز منعقد کراؤ گے مشاعرے سجائے جائیں گے  ایوارڈز تقسیم کرو گے اور تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دوگے مگر کیا فائدہ مرنے کے بعد کس نے دیکھا کہ کسی چوراہے پہ اسکے نام کی تختی لگا کر اسے اعزاز بخشا جارہاہے جو کرنا ہے انکی زندگی میں کیجیے تاکہ انہیں بھی فخر ہو کہ جس مملکت کی آبیاری میں انکے فن کے لطیف احساسات بھی شامل ہیں اس ریاست نے بڑھ کر ایسے مالیوں کے گلے لگا لیا ہے۔
اساں مفت اِچ شاکر رُل گئے ہیں
جڈاں ویسوں مر ساڈا مُل پوسی۔
میرا ایک شعر شاکر صاحب کے لیے کہ
شاکر اساں شرمسار بہوں
توں ظرفاں آلا ساکوں معاف چاکر
اساں تیڈی حیاتی رُلدی ڈیکھی
تُوں قلماں آلا ساکوں معاف چا کر
توں مر کہ ڈیکھ اساں عزت ڈیسوں
تُوں صبراں آلا ساکوں معاف چا کر۔

@NayyarZakia

Leave a reply