شامی باغی صدر بشار الاسد کے محل تک پہنچنے میں کامیاب
شامی باغی حلب میں صدر بشار الاسد کے محل تک پہنچنے اور اس میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
باغی ٹی وی : شامی باغیوں کی تنظیم ”حیات تحریر الشام“ (HTS) نےہفتے کو حلب شہر میں داخل ہونے کے بعد اس پر قابو پا لیا ہے، اور حکومتی حامی شامی افواج کو تقریباً گھیر لیا، جس کے نتیجے میں شامی دفاعی افواج کی کرد فورسز کو آنا پڑاشامی باغیوں نے صدر بشار الاسد کے محل کے ساتھ ساتھ قریبی حلب ملٹری اکیڈمی پر بھی قبضے کا دعویٰ کیا، اس دوران باغیوں نے روسی فضائی دفاعی نظام پر قبضہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا، حلب کا تقریباً پورا علاقہ اس وقت باغیوں کے قبضے میں ہے، سوائے شہر کے شمال میں واقع چند کرد محلو ں کے، جو اب بھی شامی افواج کے قبضے میں ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق کچھ رپورٹس نے اشارہ کیا کہ باغی اور شامی افواج، فوجیوں کے انخلا کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم ایس ڈی ایف نے اس کی تردید کی ہے حلب کی لڑائی (2012-16) کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اسد حکومت شام کے دوسرے شہر کا کنٹرول کھو چکی ہے، جو حکومت کے کنٹرول میں سنگین بگاڑ کا اشارہ ہےرپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اسد کے تمام فوجیوں نے شہر کو خالی کر دیا ہے۔
شام میں زمینی سطح پر تیزی سے پیش رفت کے بعد اور حلب پر مسلح دھڑوں کی جانب سے کیے گئے اچانک حملے کے تناظر ایرانی وزارت خارجہ نے شامی حکومت کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دمشق کی درخواست پر ایرانی فوجی مشیروں کی دمشق میں موجودگی برقرار رہے گی،انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام اور خطے میں عدم تحفظ کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ لبنان میں جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد دہشت گرد گروہوں کا دوبارہ متحرک ہونا محض ایک اتفاق یا حادثہ ہے، لیکن اگر ہم 2011ء اور 2012ء کے بعد شام میں دہشت گردی کے ابھرنے کی تاریخ پر نظر ڈالیں اور اس کے اور اسرائیل کے درمیان مشکوک تعلقات کو دیکھیں تو ہم ان واقعات کو محض اتفاق نہیں سمجھ سکتے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اسرائیلی حکام بھی سمجھتے ہیں کہ شام میں ان تبدیلیوں نے "مزاحمت کے محور” کو کمزور کر دیا ہے،ہ ترکیہ کے حکام بھی شام میں ہونے والی پیش رفت پر اتنے ہی فکر مند ہیں جتنا کہ ایران ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "شام میں کسی بھی قسم کی عدم تحفظ یا دہشت گردی کا پھیلاؤ نہ صرف شام کو متاثر کرے گا بلکہ اس کے پورے خطے کی سلامتی پر اثرات مرتب ہوں گے”۔
بین الاقوامی اور علاقائی خدشات کے جلو میں شامی فوج کی پسپائی اور حلب میں تحریر الشام محاذ اور اس کے اتحادی دھڑوں کی طرف سے شہر پر مکمل کنٹرول کے بعد عراق نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سرحدیں مکمل طور پر محفوظ ہیں اور سکیورٹی فورسز چوکس ہیں۔
عراقی وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل مقداد مری نے آج پیر کو بارڈر فورسز کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمد صقر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ شام ۔ عراق سرحد کو تھرمل کیمروں سمیت تمام تکنیکی اور انسانی ذرائع سے محفوظ بنایا گیا ہے، آج کی عراق اور شام کی سرحد کا 2014ء کے حالات سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا”۔
عراقی فوج نے اعلان کیا کہ اس کے یونٹس نینویٰ کے مغرب میں شمالی سیکٹر کو بکتر بند اور مشینی یونٹوں کے ساتھ مدد فراہم کرنے کے بعد جنوب میں القائم سے اردن کی سرحد تک کھلی سرحد کی سکیورٹی کے لیے منتقل ہو گئے ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے ایرانی ہم منصب مسعود پیزشکیان کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران کہا ہے کہ شام میں دہشت گردی میں اضافہ مشرق وسطیٰ کے خطے کو تقسیم کرنے اور مغربی مفادات کے مطابق دوبارہ نقشے تیار کرنے کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔
شامی ایوان صدر کی طرف سے ٹیلی گرام پیج پر شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ شامی صدر اور ان کے ایرانی ہم منصب کے درمیان فون کال کے دوران صدر الاسد نے اس بات پر زو دیا کہ شام میں "دہشت گردی میں اضافہ” ایک مخصوص منصوبے کے تحت کیا گیا ہے تاکہ خطے کو تقسیم کرنے کرکے اس کا نیا نقشہ جاری کیا جا سکے،پیشرفت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ خطے کے ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور امریکہ اور مغرب کے مفادات اور اہداف کے مطابق دوبارہ نقشے بنانے کی کوششیں ہیں۔
دوسری جانب ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے اپنے ملک کی جانب سے شام کے اتحاد اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی تمام کوششوں کو مکمل طور پر مسترد کیا،انہوں نے کہا کہ شام کے اتحاد کو نقصان پہنچانا خطے، اس کے استحکام اور اس کے ممالک کے اتحاد کے لیے ایک دھچکا ہو گا، انہوں نے زور دیا کہ ایران شام کو ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
علاوہ ازیں ترکیہ اور ایران نے شام کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک شام کو دہشت گردی کا گڑھ نہیں بننے دیں گے، دمشق سے اپنے فوری دورے پر انقرہ پہنچنے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے ترک ہم منصب ہاکان فیدان سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
ترک وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں چیف ایرانی سفارت کار نے تہران اور انقرہ کے درمیان اس بات پر زور دیا کہ شام کو "دہشت گرد گروہوں” کی آماجگاہ بننے سے روکنے کی ضرورت ہے،انہوں نے شام میں "دہشت گرد تنظیمو ں” پر اسرائیل اور امریکہ سے تعاون حاصل کرنے کا الزام لگایا تاہم ان کے ترک ہم منصب نے یہ الزام مسترد کر دیا۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شام کی خطرناک صورتحال خطے کے تمام ممالک کو متاثر کرے گی، "آستانہ معاہدے” کے حوالے سے ترکیہ اور ایران کے موقف میں ہم آہنگی موجود ہے۔
انہوں نے شام کے بارے میں علاقائی مشاورت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے شامی حکومت اور اس کی فوج کی کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا،انہوں نے وضاحت کی کہ ترکیہ کے ساتھ ان کی مشاورت بہت اچھی رہی، خاص طور پر چونکہ انہوں نے شامی سرزمین کے اتحاد اور خودمختاری کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔
ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے شام میں ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا ہےانہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام میں "دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے” کے حوالے سے ترکیہ اور ایرانی خیالات میں اتفاق پایا جاتا ہے،انہوں نے شام کی علاقائی سالمیت کے لیے انقرہ کی حمایت پر بھی زور دیا۔
ترک وزیر خارجہ کہا کہ شام میں ہونے والی تازہ ترین پیشرفت حکومت اور دھڑوں کے درمیان کسی سمجھوتے تک پہنچنے کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو انقرہ کسی بھی بات چیت میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہےہم نہیں چاہتے کہ شام میں خانہ جنگی شدت اختیار کرے یا شہر تباہ ہوں، عام شہری مارے جائیں اور شام کے لوگ دوبارہ بے گھر ہونے اور ہجرت کرنے پر مجبور ہوں، دہشتگرد گروہوں کے حوالے سے ان کے ملک کی حساسیت برقرار ہے شام میں استحکام ضروری ہے اور خطے میں خونریزی اور تباہی کو روکنا ضروری ہے۔