صدر بشار الاسد کا 24 سالہ دور ختم ہو گیا،سربراہ باغی گروپ

صدر بشارالاسد ملک چھوڑ کر طیارے میں کسی نامعلوم مقام کی طرف چلے گئے ہیں
president

دمشق: شامی فوجی کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کا 24 سالہ دور ختم ہو گیا۔

باغی ٹی وی : غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق شامی فوجی کمانڈ نے اعلان کیا ہے کہ صدر بشارالاسد کا 24 سالہ دور ختم ہو گیا دمشق میں گولیاں چلنے اور دھماکے سنے جانے کی بھی اطلاعات ہیں جبکہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور جشن میں نعرے بازی بھی کر رہے ہیں، اس حوالے سے شامی باغی گروہ کا کہنا ہے جشن کے دوران ہوائی فائرنگ کی اجازت نہیں ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کا بتانا ہے کہ عوام کی جانب سے امیہ اسکوائر پر جشن منایا گیا شہری شامی فوج کے ٹینکوں پر چڑھ گئے، دمشق میں باغی ملیشیا کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، دمشق کے قریب جیل سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

صدر بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد باغی گروپ تحریر الشام ملیشیا کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اپنے بیان میں کہا کہ پُرامن انتقال اقتدار تک سابق وزیراعظم محمد غازی الجلالی تمام ریاستی اداروں کو چلائیں گے کسی بھی صورت شام میں موجود کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کریں گے۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کے ٹینک اور بکتر بند جنوب مغربی شام کی قنیطرہ گورنری میں داخل ہو گئیں۔

عبرانی میڈیا آؤٹ لیٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج سرحدی دفاع مضبوط بنانے کے لیے قنیطرہ کے بفرزون میں داخل ہوئیں۔

قبل ازیں شامی باغیوں نے دارالحکومت دمشق میں داخل ہونے کا دعویٰ کردیا ہے شامی صدر بشارالاسد بھی دمشق چھوڑ کر نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو گئے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مقامی شہریوں نے بتایا کہ دمشق میں گولیاں چلنے کی آوازیں اور دھماکے سنے جا رہے ہیں،بشارالاسد کے صدارتی محافظ بھی ان کی معمول کی رہائش گاہ پر تعینات نہیں جس کے باعث ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ بشار الاسد فرار ہوچکے ہیں، شامی فوجی افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ بشارالاسد طیاتازرے پر فرار ہوئے۔

عرب میڈیا کے مطابق شام کے باغیوں نے دمشق ائیرپورٹ اور سرکاری ٹی وی کی عمارت پرقبضے کا دعویٰ کیا ہے، دمشق میں شامی وزارت داخلہ کی عمارت باغیوں کے قبضے میں آگئی ہے دارالحکومت پر باغیوں کے قبضے کی اطلاعات کے بعد دمشق کے مرکزی اسکوائر پر ہزاروں شہری جمع ہو گئے اور جشن اور نعرے بازی شروع کر دی۔

شامی اپوزیشن وار مانیٹر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ صدر بشارالاسد ملک چھوڑ کر طیارے میں کسی نامعلوم مقام کی طرف چلے گئے ہیں، صدر بشارالاسد آج صبح طیارے میں بیٹھ کر دمشق سے فرار ہوئے شامی کردوں نے دیرالزور کا کنٹرول سنبھال کر اپنا جھنڈا لہرا دیا اور صدربشارالاسد کی فوج کو شہر چھوڑنے پر مجبور کیا، سیکڑوں فوجیوں اور سرکاری افسران نے عراق میں پناہ لے لی۔

دوسری جانب جنگجو لیڈر محمد الجولانی نے کہا ہے کہ شام میں حالیہ بغاوت کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو گرانا ہے، شامی حکومت کا خاتمہ قریب ہے، ہتھیار پھینکنے والے سرکاری فوجیوں کو عام معافی دی جائے گی۔

شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی گروپ حیات تحریر الشام کے باغیوں نے اتوار کے روز حکومت کے خلاف زبردست کارروائی کے دوران اہم شہر حمص پر قبضہ کرنے کا اعلان کیارپورٹ میں بتایا گیا کہ باغیوں نے حمص کی سینٹرل جیل پر بھی قبضہ کیا جس دوران تین ہزار پانچ سو قیدی فرار ہوگئے۔

باغیوں کا اسرائیلی سرحد کے قریب القُنیطرہ کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ خبرایجنسی کے مطابق دو ہزار شامی فوجیوں نے عراق میں پناہ لے لی۔ جبکہ پولینڈ نے اپنے شہریوں کو شام چھوڑنے کی ہدایت کردی ہے۔

اس کے علاوہ امریکی میڈیا نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ شامی صدربشارالاسد دمشق میں موجود نہیں ہیں جبکہ شامی فوج دمشق کے مضافات سے پیچھے ہٹ گئی ہے،امریکی اور مغربی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بشارالاسد حکومت آئندہ ہفتے ختم ہونے کا امکان ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق تمام ایرانی فوجی عہدیدار خصوصی پرواز کے ذریعے دمشق سے تہران روانہ ہوگئے ہیں جبکہ پولینڈ نے اپنے شہریوں کو شام سے فوری نکلنے کا حکم دے دیا ہے اس کے علاوہ حمص شہر سے درجنوں فوجی گاڑیوں کو نکلتے دیکھاگیا، حمص کے مرکزی سکیورٹی ہیڈکوارٹرز سے بھی سکیورٹی اہلکار نکل گئے۔

عرب میڈیا کے مطابق شامی آرمی چیف جنرل عبدالکریم محمد ابراہیم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شامی عوام باغیوں کی من گھڑت افواہوں پر کان نہ دھرے، شامی فوج بغاوت پرقابو پانےکے لیےکوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، فوج نے باغیوں پر شدید حملے کرکے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کا صفایا کیا،باغیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دیہی علاقوں میں فوج کے دستے موجود ہیں، عوام کے تعاون سے جلد بغاوت پر قابو پا لیا جائے گا۔

شام کی جنگ میں اہم واقعات

مارچ 2011: دمشق اور درعا میں پرامن احتجاج شروع ہوا الاسد حکومت نے ایک پرتشدد کریک ڈاؤن کے ساتھ جواب دیا، جس کے نتیجے میں مسلح بغاوت ہوئی،

جولائی 2012: حلب کی لڑائی کے ساتھ تنازعہ شدت اختیار کر گیا، جس میں اپوزیشن فورسز نے شہر کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا۔ شامی فوج نے چار سال بعد اس پر دوبارہ قبضہ حاصل کیا-

اگست 2013: مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں سینکڑوں شہری مارے گئے یہ حملہ بین الاقوامی سطح پر مذمت کا باعث بنااور شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کرنے پر آمادہ کیا گیا-

جون 2014: داعش نے پورے شام اور عراق میں ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد خلافت کا اعلان کیا۔ رقہ، شام میں ان کا اصل دارالحکومت بن گیا اور ان کی حکومت 2019 تک جاری رہی۔

ستمبر 2015: روس نے الاسد کی حمایت میں براہ راست فوجی مداخلت شروع کی۔ روسی فضائی حملوں نے حکومتی فورسز کے حق میں لہر کو موڑنے میں مدد کی۔

اپریل 2017: خان شیخون میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جواب میں شامی حکومت کے اہداف پر میزائل حملے شروع کرتے ہوئے امریکہ ملوث ہو گیا یہ اسد کی افواج کے خلاف ان کی پہلی براہ راست فوجی کارروائی تھی۔

نومبر 2024: پچھلے چار سالوں میں تنازعہ بڑی حد تک رُک گیا، یہاں تک کہ مسلح گروپوں نے ادلب سے پچھلے ہفتے آپریشن شروع کیا۔

Comments are closed.