شعور ہمارا مفادات،دولت اور شہرت تحریر: راجہ ارشد
یہ دنیا بڑی ظالم ہے
دنیا کا اصول ہے یہاں جو بولتا ہے اسے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
زور بازو کے ذریعے اس آواز کو دبا دیا جاتا ہے حق پر ڈٹ جانے والے یا تو مار دیئے جاتے ہیں یا پھر ان کو قید کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہی آواز زیادہ گونجتی اور اثر رکھتی ہے جو آواز مظلوم طبقے کے لئے ظالم کے خلاف بلند کی جاتی ہے۔
اس سماج میں رہنے والا ہر طاقتور جب اپنی رعایا پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے تو ہمیشہ اس کے خلاف اعلان بغاوت ہوتا ہے لیکن میرا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں آواز بلند کرنے کی جرات نہیں ہے بولنے والا ہو یا پھر لکھنے والا مفادات کے سامنے اپنے ضمیر اپنے قلم اور الفاظ کا سوداگر بن جاتا ہے تاریخ کے اوراق میں جتنے بھی ظالم کو للکارنے والے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے
ان کی زندگیوں کو موت سے بھی مشکل بنا دیا گیا تھا دور حاضر میں شاید یہ جرات کسی کی نہیں لکھنے والے ہاتھ کانپتے ہیں تو بولنے والی زبان لڑکھڑا جاتی ہے لیکن یہ جہاد ہے کہ آپ اپنے قلم کی طاقت سے جب وقت کے خدائوں کو للکارتے ہیں تو ان کے محلات کی دیواریں بھی کانپ جاتی ہیں۔
لیکن یاد رکھیں اس طاقت سے آپ کسی بھی معاشرے کے اندر انقلاب برپا نہیں کر سکتے میری قوم کی سوچ کو نہیں بدل سکتے کیونکہ ہماری ترجیحات میں نظام کی تبدیلی اور اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کا شعور ہی نہیں ہے ہمیں اپنے مفادات دولت اور شہرت کے لالچ سے فرصت نہیں ہے ہم خود پرسکون رہنا چاہتے ہیں اپنے ارد گرد سے بے خبر ہو کر اپنی ذات کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
جب ظلم کی دیواروں کو گرانے کے لئے کوئی آواز کہیں دور سے گونجتی ہے تو بجائے ہم اس آواز کو روشنی کی پہلی کرن سمجھیں اسے اندھیروں میں ہی ڈبو دینے کے لیے ہر طاقتور کا بازو بن جاتے ہیں
او آج ہم عہد کریں ہمیں ہر ظلم کا جواب اپنی بھرپور طاقت سے دینا ہے کیونکہ ہم آزاد ہیں کسی حاکم کے غلام نہیں ہیں ہم آزاد قوم ہیں دنیا کی کسی سپرپاور کے سامنے بے بس اور مجبور نہیں ہیں
اللہ پاک ہم سب کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق دیں ۔ آمین
@RajaArshad56