![](https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2021/04/372766_2133325_akhbar.png)
لاہور:بیوروکریسی آج بھی نوازشریف کی غلام:شریفوں کے کرپٹ افسران مسلمان،کپتان کے حامی بے ایمان:خصوصی رپورٹ،اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان اس وقت مکمل طوربیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اوربیوروکریسی آج بھی نوازشریف کی عنایات کی وجہ سے اس کی غلام ہے
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان جوکہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں اورکرپٹ افسران اوربیوروکریٹس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے کپتان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے اورآج بھی بیوروکریسی میں ایسے طاقتورلوگ موجود ہیں جونوازشریف کے حامی افسران کوہرصورت تحفظ دینے کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں
[wp-embedder-pack width=”100%” height=”400px” download=”all” download-text=”” attachment_id=”343303″ /]
باغی ٹی وی کے مطابق اس حوالے سے بیوروکریسی میں اس بات پراتفاق پایا جارہا ہے کہ اگرانہوں نے اپنا مستقبل بچانا ہے تونوازشریف کو بچانا ہے ،نوازشریف کے پسندیدہ افسران کو نہ صرف بچانا ہے بلکہ کے گرد ایک آہنی دیواربھی کھڑی کرنی ہے تاکہ عمران خان ان کے خلاف موثراقدامات نہ کرسکے
اس حوالے سے باغی ٹی وی نے جب وزیراعظم کے ویژن کا مطالعہ کیا اوروزیراعظم کے احکامات کے تحت کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کا جائزہ لیا توبڑے خطرناک حقائق سامنے آئے
بیوروکریسی میں ایک مضبوط لابی بن چکی ہے جوبظاہرتوعمران خان کے تابع دکھائی دیتی ہے لیکن اس آڑ میں وہ اپنے حامی افسران اورنوازشریف کے تابعداروں کو درپیش مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرتی ہے
ویسے تو بہت سے ایسے ایشوز ہیں کہ جن کی بنیاد پرکہا جاسکتا ہے اوریہ ثابت بھی ہےکہ بیوروکریسی عمران خان کوناکام کررہی ہے اورایسے حالات پیدا کررہی ہے کہ جوافسران عمران خان کے ویژن کو پسند کرتے ہیں ان کواس قدر مشکلات میں پھنسا دیا گیا ہے کہ وہ اب اپنی نوکریاں بچانے کی فکرمیں اعلیٰ افسران کے مرہون منت ہیں
[wp-embedder-pack width=”100%” height=”400px” download=”all” download-text=”” attachment_id=”343305″ /]
باغی ٹی وی نے بہت سے ایسے مسائل کا احاطہ کیا ہے لیکن ان میں سے پولیس کے محکمے میں وزیراعظم کے حکم کے مطابق انکوائریوں کی چھان بین کی ہے اوریہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ پولیس افسران جونوازشریف کی طرف سے مراعات یافتہ ہیں ان کوان تحقیقات اورانکوائریوں میں بچانے کی کوشش کی گئی اوراس کے قوی ثبوت بھی موجود ہیں
اس کے برعکس وہ افسران جوعمران خان کے ویژن کوپسند کرتے ہیں ان کو”کھڈے لائن” لگانے کے لیے بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران ایسے ایسے مسائل میں پھنسا رہے ہیں کہ جن کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگرعمران خان نے ان افسران سے بذات خود ان کے تحفظات نہ سنے تو معاملات وزہراعظم کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور کل کوکوئی عمران خان کا نام لینے والا بھی نہیں ہوگا
اس حوالے سے سب سے پہلے سابق سی سی پی او لاہورعمر شیخ کے حوالے سے میڈیا پرہونے والے پراپگینڈہ کی حقیقت جاننے اورعمر شیخ کے خلاف محکمانہ انکوائریوں کا جائزہ لیا گیا توبڑے ہوش ربا انکشافات سامنے آئے جن کے مطابق !
عمرشیخ کوجان بوجھ کرایسے کرپٹ افسران کی فہرست میں شامل کیا گیا جن کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ ہوا
عمر شیخ کے خلاف ایسے اقدامات کرنے والے ایسے بیوروکریٹس کا نام سامنے آیا جن کے تانے بانے نوازشریف سے ملتےہیں
عمر شیخ کے خلاف انکوائریوں کے پروسیجرکوبھی اختیارنہیں کیا گیا
عمرشیخ کے خلاف جاری تحقیقات میں ایسے بنیادی اصولوں اورقواعد ضوابط کوبھی نظراندازکیا گیا جن کی بنیاد پرافسران کے خلاف انکوائری مقصود ہوتی ہے
دیکھتے ہیں کہ حکومت کی یہ پالیسی کیا تھی اوراس کی بنیاد پرکیافیصلے مقصود تھے
[wp-embedder-pack width=”100%” height=”400px” download=”all” download-text=”” attachment_id=”343308″ /]
قانونی فریم ورک کی موجودگی میں، ایسے افسران جنہوں نے سروس میں 20؍ سال مکمل کرلیے ہیں اور سرکاری ملازمت کیلئے کار آمد نہیں ہیں، انہیں قبل از وقت ریٹائر کر دیا جائے گا اور اس مقصد کیلئے وزارتوں، ڈویژنوں اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کو وزیراعظم آفس کی طرف سے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے وجوہات کا اعلان کر دیا گیا ہے اور ان میں وہ افسران شامل ہیں :
1- جنہیں کارکردگی جائزہ رپورٹ میں اوسط ریمارکس ملے ہیں (پی ای آر، جنہیں پہلے اے سی آر کہا جاتا تھا)، یا ا ن کی پی ای آر میں تین مختلف افسران کی جانب سے تین یا اس سے زیادہ مرتبہ خراب ریمارکس دیے گئے ہیں۔
2- جنہیں سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی)، ڈپارٹمنٹ سلیکشن بورڈ (ڈی ایس بی) یا ڈپارٹمنٹ پروموشن بورڈ (ڈی پی بی) کی جانب سے دو مرتبہ ہٹا کر کسی اور کو ان کے عہدے پر رکھنے کی سفارش کی ہو، یا اعلیٰ اختیارات کے حامل سلیکشن بورڈ کی جانب سے دو مرتبہ اس افسر کی ترقی کی سفارش نہ کی ہو اور ان سفارشات کو مجاز اتھارٹی کی جانب سے منظور کیا گیا ہو۔
3- جنہیں کرپشن کا مرتکب قرار دیا گیا ہو یا اس نے پلی بارگین کیا ہو یا رضاکارانہ طور پر نیب یا کسی تحقیقاتی ایجنسی کو پیسے واپس کیے ہوں۔
4- جنہیں ایک سے زیادہ مرتبہ سی ایس بی، ڈی ایس بی یا ڈی پی سی کی جانب سے سول سرونٹس پروموشن (بی ایس 18؍ تا 21) رولز 2019ء کے تحت ’’سی‘‘ کیٹگری میں رکھا گیا ہو۔
5- جس کا رویہ ناشائستہ ہو۔ ریٹائرمنٹ بورڈ اور ریٹائرمنٹ کمیٹی کو پہلے ہی مطلع کر دیا گیا ہے۔ 20؍ اور زیادہ گریڈ کے افسران کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے ایک ریٹائرمنٹ بورڈ تشکیل دیا جائے گا جس میں چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن شامل ہوں گے جو بورڈ کے سربراہ ہوں گے۔
دیگر ارکان میں کابینہ ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن، وزارت قانون و انصاف ڈویژن اور متعلقہ ڈویژن کا سربراہ یا سیکریٹری شامل ہوں گے۔ گریڈ 19؍ یا اس سے نیچے گریڈز کے افسر کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے حکومت نے ریٹائرمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔
ہر ڈویژن یا ڈپارٹمنٹ میں مختلف ریٹائرمنٹ کمیٹیاں ہوں گی جو مجاز اتھارٹی کو ایسے افسران کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی سفارش کریں گی۔ گریڈ 17؍ تا 19؍ کی ریٹائرمنٹ کمیٹی کا چیئرمین متلعقہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والا ایک ایڈیشنل سیکریٹری یا سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہوگا۔
اس کمیٹی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن، لاء ڈویژن اور متعلقہ محکمے یا افسر کا سربراہ شامل ہونگے۔ گریڈ 16؍ اور اس سے نیچے کیلئے تشکیل دی جانے والی ریٹائرمنٹ کمیٹی کا چیئرمین متعلقہ ڈویژن کا جوائنٹ سیکریٹری یا سینئر جوائنٹ سیکریٹری ہوگا۔
دیگر ارکان میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن، لاء ڈویژن اور متعلقہ دفتر یا محکمے کا سربراہ شامل ہوں گے۔ اس نئی اسکیم پر عملدرآمد کیلئے، تمام وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے سرکاری ملازمین کی فہرست تیار کریں جنہوں نے اپنی ملازمت کی طے کردہ معیا مکمل کرلی ہے اور وہ ایسی کیٹگری میں شامل کیے جا سکتے ہیں جنہیں قبل از وقت ریٹائر کیا جا سکتا ہے۔
یہ بورڈز اور کمیٹیاں اپنی سفارشات مجاز اتھارٹی کو بھیجیں گی۔ اگر مجاز اتھارٹی ان سفارشات سے اتفاق کرتی ہے تو مذکورہ سرکاری ملازم کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جائے گا اور اس میں وہ وجوہات بتائی جائیں گی جن کی بنا پر اسے قبل از وقت ریٹائر کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی اس افسر کو درخواست کرنے کی صورت میں موقع دیا جائے گا کہ ذاتی حیثیت سے پیش ہو کر سماعت میں حصہ لے۔
اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب ملنے اور ذاتی حیثیت سے سماعت کا موقع ملنے کے بعد اگر مجاز اتھارٹی مطمئن ہو جائے کہ مذکورہ افسر کو ملازمت پر برقرار رکھنا عوامی مفاد میں نہیں تو اس کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیلئے احکامات جاری کیے جائیں گے۔
اب دوبارہ پھرآتے ہیں عمرشیخ کے کیس کیطرف !
عمرشیخ کے خلاف جاری تحقیقات مندرجہ بالا پالیسی کے تحت نہیں آتیں اوراگرمفروضوں کی بنیاد پرشامل بھی کرلیا جائے توپھرحکومت کی طرف سے ڈیزائن کردہ پالیسی کوملحوظ خاطررکھنا ضروری ہے
اس اصول کے تحت عمرشیخ کے خلاف جاری تحقیقات کوخلاف ضابطہ سپرسیڈ کرنے کے لیے باربارپیش کیا جارہا ہے حالانکہ اصول یہ ہے کہ جس افسر کا معاملہ ایک مرتبہ پیش کیا جائے گا توپھرکمیٹی کے سامنے اس معاملے کو ایک سال میں مرتبہ ہی پیش کیا جائے گا بار بار نہیں جبکہ عمرشیخ کے معاملے یعنی سپرسیڈ کوبار بارایک سال مکمل ہونے سے پہلے پیش کرکے ضابطہ کارکی خلاف ورزی کی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک لابی ہے جوعمرشیخ کے خلاف ہر صورت امتیازی کارروائی چاہتی ہے ،
ان تحقیقات کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ پالیسی یہ ہے کہ جوافسرسپرسیڈ ہوجائے تودوبارہ اس کوایک سال کے بعد پروموش بورڈ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اورایک سال کے بعد ان کواگرضرورت پڑے توسپرسیڈکیا جاتا ہے لیکن اس لابی نے ایک سال سے پہلے سپرسیڈ کرکے ہمارے مستقبل پرتلوارلٹکا دی
اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ اگرکسی افسرکوسپرسیڈ کیا جاتا ہے توپندرہ دن کے اندراس کی وجوہات بتائی جاتی ہیں لیکن مجھے نہیں بتایا گیا ،
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بورڈ اس لیے وجوہات نہیں بتارہا تھا کہ کہیں ان کے خلاف عدالتی کارروائی ہی نہ ہوجائے
اس حوالے سے سائل لاہورہائی کورٹ گئے اورہائی کورٹ نے سائل کودرست قراردیتے ہوئے اس بورڈ سے کہا کہ وہ سپرسیڈ کرنے کی وجوہات بیان کریں
اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا ہےکہ اس بورڈ نے جان بوجھ کرایسے موقع پروجوہات بیان کیں کہ کیس کوان وجوہات کی بنا پرعدالت عظمیٰ میں دائرکرنا مقصود تھا لیکن اس موقع پربھی گیم کھیلی گئی اورفقط دو تین دن کا بمشکل وقت دیا گیا تاکہ میں کیس کی اچھے انداز سےتیاری نہ کرسکوں
پالیسی تو یہ تھی کہ جن کی اس دوران د و مربتہ سپرسیڈیشن ہوئی ہو، نیب کے ساتھ پلی بارگیننگ چل رہی ہو،اوراس کے ساتھ ساتھ اس عرصے کے دوران تین اے سی آرکا معاملہ زیربحث آیا ہو، ایسے افسران جن پرانٹی کرپشن نے کیسزدائر ثابت ہوچکے ہوں ان کوجبری ریٹائرڈ کیا جائے گا
اس حوالے سے جب جائزہ لیا گیا یہ بھی انکشاف ہوا کہ جووزیراعظم کے اپنے ذاتی بندے یعنی افسران ہیں ان کوبچانے کےلیے بڑا کھیل کھیلا جارہا ہے ، اس حوالے سے آئی جی صلاح الدین کے خلاف تین اے سی آر زیربحث ہیں اس کوبچانے کی کوششیں ہورہی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ ایک ایف آئی اے کے افسرکاکا خیل کہ جس نے اسلحے کی خریداری میں کمیشن لیا اوراس میں کے پی کے اعلیٰ پولیس افسران شامل تھے اس نے پلی بارگیننگ کی تھی اس کا نام بھی نکال دیا گیا ہے
باغی ٹی وی کے مطابق اب حکومت کوان اعلیٰ بیوروکریٹس نے عجیب مشورہ دیا جس کے مطابق وہ افسران جوان کے اپنے تھے ان کو بچا لیا گیا اوران پولیس افسران کوپکڑ پکڑ کرپھنسانے کے لیے لایا جارہا ہے جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں
ان تمام واقعات کی تحقیقات کے بعد یہ چیزیں سامنے آئی ہیںکہ ان افسران کے خلاف انکوائریاں کرنے والے خود ملزم ہیں اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ اکبردرانی جیسے افسران جس کے خلاف تین اے سی آرز ہیں وہ اپنے عہدے پربراجمان ہیں اوراس کے خلاف کوئی انکوائری نہیں
دوسرے بڑے بیوروکریٹ ڈاکٹراعجازمنیرجوکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ہیں وہ خود ملزم ہیں اوربہاوالدین یونیورسٹی کوایک کاغذ کے ٹکڑے پرمنظوری دی
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے بیوروکریسی میں ایک لاوا پھٹنے جارہا ہےاورایسے کرپٹ افسران جودوسروں کے مستقبل سےکھیل رہے ہیں اوراپنےآپ کو بچا رہے ہیں ان کے خلاف احتجاج بھی ہوسکتا ان کے خلاف عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاسکتا ہے
تحقیقات کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ عمر شیخ کے ساتھ ساتھ احمد اسحاق جہانگرجو کہ ڈی آئی جی ہیں ان کے خلاف بھی خلاف ضابطہ انکوائریاں کی جارہی ہیں
باغی ٹی وی کے مطابق کیپٹن فیروزشاہ ، اظہررشید خان ، عزراجمالی ہیں جن کے خلاف سینٹرل پنجاب کی بیوروکریسی یہ چال چل رہی ہے اورنوازشریف کے ٹاوٹ ہیں
ان تحقیقات کے نتیجے میں ایک خطرناک چیزسامنے آئی ہے کہ ایسے افسران کے خلاف یہ کھیل کھیلا جارہا ہے جوجنوبی پنجاب سے ہیں ، بلوچستان اورسندھ سے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ جن کا تعلق ن لیگ سے نہیں ہے