شین اور میم نکالنے والوں کی اپنی جماعت میں سے جیم اور عین نکل گیا ،تحریر:نوید شیخ

0
23

ن میں سے شین اور شین میں سے میم نکالنے والوں کی اپنی جماعت میں سے جیم اور عین نکل گیا !!!

۔ اس وقت پی ٹی آئی والوں کو سمجھ نہیں آرہا ہے کہ
۔ چل کیا رہا ہے ۔
۔ ہو کیا رہا ہے ۔
۔ اور ان کا بنے گا کیا ؟؟؟

۔ کیونکہ ایک جانب پنجاب میں اپنوں اور مخالفوں دونوں نے مل کر سیاسی محاذ مزید گرم کر دیا ہے ۔ تو اسلام آباد میں بھی تمام اپوزیشن جماعتوں کے بڑے حملے کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ تیسرا بلاول کا لانگ مارچ اسلام آباد پر دھاوا بولنے کو پہنچنے والا ہے ۔ یوں جو بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا تھا، وہ لگتا ہے کہ بکھر رہا ہے ۔ پنجاب میں کھپ کچھ زیادہ دیکھائی دے رہی ہے اور ق لیگ نے شاید ٹرین مس کردی ہے ۔ اب معاملات کسی اور طرف جاتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ اسی حوالے پرویز الٰہی نے مشورہ دیا ہے کہ حالات تیزی سے حکومت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں، جو پہلے فیصلہ لیتا ہے سیاست میں اس کوبرتری حاصل ہوجاتی ہے۔ کیونکہ علیم خان اور جہانگیر ترین گروپ کا اہم اجلاس ہوگیا ہے ۔ جس میں علیم خان نے جہاں جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار کی وہاں بڑے اہم فیصلے بھی کیے گئے ہیں ۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا جہانگیر ترین اور علیم خان کا ہدف صرف پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہوگی؟
یا
پھر پی ٹی آئی کا بڑا حصہ اب جہانگیر ترین اور علیم خان مل کر چلائیں گے ۔ یعنی عمران خان کی جانب سے جس ڈر سے ان دونوں کو سائیڈ لائن کیا گیا تھا کہ یہ پارٹی کو قابو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ویسا ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ وزیر اعظم کے رابطہ کار بھی ایکٹو ہوگئے ہیں ۔ کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانےکیلئے جدوجہد شروع ہوگئی ہے ۔ چڑیل کے مطابق پرویز الٰہی یا ق لیگ کے امیدوار کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ حتمی نتیجہ ایک دوروزمیں سامنےآجائے گا۔

۔ عبد العلیم خان نے بھی نئی پرانی ساری باتیں کردی ہیں کہ اگر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے تو ہم سب مل کر فیصلہ کریں گے کہ کس کا ساتھ دینا ہے ۔ پنجاب میں جیسی حکومت ہے اس پر تشویش ہے۔۔ پھر لندن سے خبر یہ ہے کہ ڈاکٹرز نے جہانگیرترین کو سفر کی اجازت دے دی ہے ۔ جلد وہ پاکستان پہنچ جائیں گے ۔ ۔ کپتان کے لیے مشکل صورتحال یہ بھی ہے کہ وہ ابھی تک جہانگیر ترین گروپ کو ہی نہیں منا پائے تھے کہ ان کے سابق بااعتماد ساتھی اور جہانگیر ترین کے ہم پلہ فنانسر علیم خان نے گروپ شکیل دیدیا ہے ۔ ۔ یوں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب علیم خان اور جہانگیر ترین گروپ مرکزو پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اپوزیشن تحریک کا باقاعدہ حصہ بن جائیں ۔۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عمران حکومت کا اصل بحران اندرونی ہے۔ تحریکِ انصاف کے الیکٹ ایبلز حکومت کی خراب کارکردگی پہ بہت ناراض ہیں اور اُنہیں اپنے سیاسی مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ کچھ تو پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ کے خواہش مند ہیں۔ لیکن جتنی درخواستیں ہیں اتنی اسامیاں خالی نہیں۔ جہانگیر ترین اورعلیم خان کے ہم خیالوں کے گروپ کے سامنے آنے کی اہم وجہ بھی یہ ہی معلوم ہوتی ہے ۔۔ اب اس مشکل صورتحال میں حکومت کی پلاننگ ذرا چیک کریں ۔ سپیکرقومی اسمبلی کا پلان یہ ہے کہ حکومتی خرچے پر اپوزیشن کے ایم این ایز کو یورپ اور امریکہ کے دورے کروائے جائیں۔ خود حساب لگالیں کہ جہاں اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے لوگوں کو اسلام آباد سے باہر جانے سے روک دیا ہے تو یہ ملک سے باہر بھیجنے کی پلاننگ کر رہے ہیں ۔ ویسے میرے حساب سے جس بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی کے اپنے اندر اکھاڑ پچھاڑ دیکھائی دے رہی ہے ۔ ان کو چاہیے کہ اپنے ایم این ایز کو یورپ اور امریکہ کے ٹور کروائیں ۔ ۔ دوسری جانب پرویز خٹک اور شبلی فراز اپوزیشن کے پندرہ سے زیادہ ارکان سے رابطوں کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ فرض کریں یہ ٹھیک بھی کہہ رہے ہوں تو نمبر گیم اس وقت پندرہ سے اوپر جا چکی ہے ۔ ۔ اسی حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ حکومت کو چیلنج ہے کہ تم لوگ کہتے ہوکہ ہمارے پندرہ لوگ تمہاری طرف چلے گئے ہیں، ایک نام بتاؤ میں تمہیں سولہ لوگوں کے نام بتاتا ہوں۔ پھر ان کا دعوی ہے کہ حکومت کے قریبی وزرا بھی ہمارے رابطے میں ہیں۔

۔ آپ دیکھیں کل آصف زرداری سے پی ٹی آئی بلوچستان کے سابق صدر سرداریارمحمد رند نے ملاقات کی ہے ۔ اس سے پہلے ندیم افضل چن پھر سے جیالا بن گئے ہیں ۔۔ اس اہم سیاسی موڑ پر اگر کوئی پارٹی مستعدی سے کھیلی ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہے۔ جس کے ایک co chairmanآصف علی زرداری اسلام آباد میں بیٹھے تمام تر سیاسی جوڑ توڑ میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں، تو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو ایک زبردست لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پر حملہ کر رہے ہیں۔ ۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا سندھ حقوق مارچ بری طرح فلاپ ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ۔ پی ٹی آئی کے حیدرآباد میں جلسے میں شاہ محمود قریشی نے شرکت نہیں کی۔ پھر وفاقی وزیر اسد عمر بھی جلسے میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے حیدرآباد پہنچے لیکن وہ بھی اسٹیج پر آئے، ہاتھ ہلایا اور چلے گئے۔ جانا بنتا ہی تھا کیونکہ خالی کرسیوں سے توبندہ خطاب نہیں کر سکتا ۔ جبکہ ارباب غلام رحیم بھی کارکنوں سے ناامید نظر آئے اور حیدرآباد والوں کو بے مروت کہا۔

۔ جب ایمپائر نیوٹرل ہوتا ہے تو ٹیموں کو اپنے زور بازو پر کھیلنا پڑتا ہے۔ دکھانا پڑتا ہے کہ ان کے پاس کھیل کھیلنے کی کتنی مہارت ہے اور وہ ایک مشکل صورت حال سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ لیکن وہ کھلاڑی کسی مشکل سے کیا نکلے گا جس نے اپنے غلط فیصلوں سے پوری ٹیم کو ایک بڑی مشکل میں دھکیل دیا ہو۔ شاید یہ حالات کی نزاکت کا ہی تقاضا ہے کہ عمران خان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ چکا ہے ۔ کیونکہ کل میلسی میں جو کچھ انھوں نے کہا وہ ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی تقریر تھی جس کے ہاتھ میں جب کچھ نہیں رہا تو وہ ایک جانب اپنے سیاسی مخالفین کو تو دھمکیاں دے ہی رہا تھا مگر دوسری جانب امریکہ اور یورپ کو برا بھلا کہنے کا مقاصد صرف ایک تھا کہ جب کپتان گھر جائیں تو وہ اور انکے لوگ کہہ سکیں کہ ہماری خلاف عالمی سازش ہوئی تھی حالانکہ کون نہیں جانتا کہ اگر اتنے ہی بڑے یہ انقلابی تھے تو لابنگ فرمز کے زریعے کون کوشش کرتا رہا ہے کہ جوبائیڈن ان کو صرف کال ہی کرلے ۔ ویسے فون کال والا رونا دھونا تو ہم کپتان کی ہر دوسری تقریر اور انٹرویو میں سنتے رہے ہیں ۔ یہ تو کچھ نہیں جو عوام کو دنیا میں دو کیمپوں والی سیاست کا بتا کرگمراہ کررہے تھے ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ امریکی خوش نودی کے لیے جب سے یہ حکومت آئی اس نے سی پیک کو کھڈے لائن لگا دیا ۔ امریکہ پھر بھی راضی نہیں ہوا ۔

۔ اب عمران خان کی اس بلاجواز بیان بازی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا ہوگا ۔ یاد رکھیں امریکہ یا یورپ ہم کو دھمکی نہیں لگائیں گے ۔ بس جیسے پہلے عمران خان کے روس پہنچنے پر اسٹیٹ بینک کو جرمانہ کیا ہے ویسے کسی مد میں ہم کو مزید مجبور کردے گا ۔ یہ جو خوشیاں منا رہے تھے کہ ہماری ٹیکسٹائل پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ہے ۔ وہ سب یورپ کی منڈیوں کے مرہون منت ہے ۔ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی بدولت ہے ۔ اس سلسلے میں ایک بھی پابندی لگی تو سمجھیں ہم پھر سے زیرو پر آجائیں گے ۔ مت بھولیں کہ دو دن پہلے برطانیہ نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی امور معید یوسف کا دورہ منسوخ کر دیا تھا ۔ حالانکہ شیرقومی سلامتی کو برطانوی حکومت نے خود دورے کی دعوت دی تھی۔

۔ پھر گزشتہ ماہ کے آخر میں امریکی صدر کے قومی سلامتی مشیر Jack Salonنے ایک خصوصی ٹیلیفون کال میں مشیرقومی سلامتی معید یوسف کو پاکستان کے روسی جارحیت پر خاموشی کے نتائج سمجھانے کی کوشش کی ۔ لیکن عمران خان نے جواب میں امریکہ کو دوبارہ شٹ اپ کال بھجوا دی ہے ۔ امریکہ یورپ کے ساتھ پاکستانی معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، اب کوئی معجزہ ہی پاکستان کو امریکہ اور یورپ کے جوابی رد عمل سے بچا سکتا ہے ۔ ۔ کپتان باتیں تو بہت بڑی بڑی کرتے ہیں ۔ مگر سچائی یہ ہے مانگنے والے ہاتھ مار نہیں سکتے ۔ عمران خان نے ملک کو اتنے قرضوں میں پھنسا دیا ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کو بھی کاٹ چکے ہیں ۔ آسان الفاظ میں جب آپ کشکول لے کر در در کے چکر لگا رہے ہوں تو پھر ایسی تقریریں اس ملک کے وزیراعظم کو زیب نہیں دیتی ۔ اپنی سیاست کی خاطر یوں ملکی خارجہ پالیسی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی مثال میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی آپ دیکھیں شہباز گل جیسے ترجمان بھی اس پر قوم کو بتا رہے ہیں کہ عدم اعتماد انٹرنیشنلی سپانسرڈ پلان ہے ۔ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نہیں عالمی طاقتیں لارہی ہیں اپوزیشن والے تو صرف کرائے کے بروکر ہیں ۔ پتہ نہیں حکومت کے ادارے اور ایجنسیاں کیا کر رہے ہیں اس سلسلے میں کہ حکومت کے خلاف ایک عالمی سازش ہو رہی ہے اور ان کو کچھ پتہ نہیں ۔ مگر وزیر اعظم کے ترجمان کو پتہ لگ گیا ہے ۔ ویسے میری سمجھ سے باہر ہے کہ جب اپنے پر بات آتی ہے تو ثبوت مانگتے ہیں کسی اور پر بات تو ہو بغیر کسی ثبوت کے الزام لگا دیا جاتا ہے ۔ اتنے سینئر ترجمان سے ایسی خالی خولی بیان بازی جچتی نہیں ۔ کیونکہ سوال تو پھر پی ٹی آئی پر بھی بنتا ہے کہ جب اسلام آباد میں 126دن کا دھرنا دیا تھا تو اس وقت ان کو کون سی عالمی طاقت مدد فراہم کر رہی تھی ۔ ۔ دراصل عمران خان کی حکومت آخری ہچکولے لے رہی ہے، تحریک عدم اعتماد میں ان کو اپنی شکست واضح نظرآرہی ہے ، ان کو سمجھ نہیں آرہا کہ کس طریقے سے اس بحران سے نکلیں۔

Leave a reply