مزید دیکھیں

مقبول

گوجرانوالہ: ڈویژنل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کا اجلاس، 2 ارب روپے سے زائد مالیت کی 8 سکیمیں منظور

گوجرانوالہ،باغی ٹی وی( نامہ نگار محمد رمضان نوشاہی) کمشنر...

اوچ شریف: مفت کتابیں خواب، تعلیمی نظام بحران کا شکار،طلباء اور والدین پریشان

اوچ شریف،باغی ٹی وی(نامہ نگارحبیب خان)ضلع بہاولپور کی تحصیل...

44 اضلاع سے حاصل 22 نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

اسلام آباد:ملک بھر کے 44 اضلاع سے حاصل کردہ...

پہلگام میں حملہ آور سخت نگرانی کے باوجود کیسے پہنچے؟کشمیری صحافی

کشمیری صحافی نے بھارتی سیکیورٹی نظام پر بڑا سوال...

شہنشاہِ جذبات اداکار محمد علی .تحریر: راحین راجپوت

آہ شہنشاہ جذبات اداکار محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے اٹھارہ برس بیت گئے لیکن وہ اپنے فن،کرداراوربارعب شخصیت کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں ۔اداکار محمد علی 19اپریل 1931ءکو بھارت کے شہر رام پور میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔محمد علی اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔محمد علی محض تین سال کے تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا ۔محمد علی کے والد سید مرشد علی نے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہ کی ۔ہجرت کے بعد سید مرشد علی اپنے خاندان کے ہمراہ ملتان آگئے ۔کچھ عرصے بعد یہ خاندان بہاولپور اور پھر حیدرآباد سندھ چلا آیا ۔محمد علی نے ابتدائی تعلیم ملتان اور بہاولپور سے حاصل کی جبکہ انٹر حیدرآباد سندھ سے کیا ۔محمد علی کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے وابستہ تھے۔محمدعلی کو ریڈیو پاکستان میں ان کے بڑے بھائی نے متعارف کرایا ۔ارشاد علی اس وقت ریڈیو پاکستان میں ڈارمہ آرٹسٹ تھے ۔محمد علی کو ان کی پرکشش شخصیت اور بہترین آواز کی وجہ سے زیادہ پزیرائی ملی ۔60ءکی دہائی میں محمد علی مستقل طور پر ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہوگئے ۔اس وقت کراچی کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری تھے ۔اسی دوران فضل کریم فضلی نے اپنی فلم "چراغ جلتا رہا”بنانے کا فیصلہ کیا تو زیڈ اے بخاری نے ان سے محمد علی کے لیے خاص سفارش کی ۔یوں محمد علی اس فلم میں کاسٹ ہو گئے ۔اس فلم میں محمد علی نے بطور ولن کردار ادا کیا جبکہ اس فلم کی ہیروئن اداکارہ زیبا بیگم تھیں اور اس فلم میں ہیرو کا کردار اداکار عارف نے ادا کیا ۔یہ فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب تو نہ ہوئی مگر اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس فلم کا افتتاح محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے ہاتھوں سے کیا ۔جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو سید مرشد علی نے اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیاتو وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ۔یہ محمد علی کے فلمی کیریئر کا آغاز تھا ۔اداکار محمد علی نوجوانی میں فلموں کے لئے کافی پرفیکٹ تھے ۔اسی دور میں اداکارہ زیبا کا بھی فلموں میں بڑا چرچا تھا اور وہ فلم انڈسٹری میں اپنا آپ منوا رہی تھی ۔محمدعلی اور زیبا کے درمیان ہم آہنگی پہلی فلم سے ہی پیدا ہونے لگی اسی وجہ سے یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے گئے ۔ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم "تم ملے پیار ملا”کی عکس بندی کے دوران انہوں نے شادی کر لی ۔شادی کے بعد انہوں نے "علی زیب”کے نام سے فلموں کی پروڈکشن شروع کی اور پہلی فلم "جیسے جانتے نہیں”بنائی ۔اس کے بعد فلم "آگ”جیسی سپر ہٹ فلم پروڈیوس کی ۔اس کے بعد محمد علی نے اپنے کیریئر میں تقریباً 111ہدایتکاروں کی لگ بھگ 250سے زائد فلموں میں کام کیا ۔ان کی بطور ہیرو پہلی فلم”شرارت "تھی اور آخری فلم”دم مست قلندر "تھی ۔جبکہ کریکٹر رول میں آخری فلم”محبت ہو تو ایسی "تھی ۔1962ءسے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے محمد علی نے 1964ءمیں فلم”خاموش رہو "میں ایسی لا جواب اداکاری کا مظاہرہ کیا کہ جس کی کامیابی کے بعد انہوں نے پلٹ کر واپس نہیں دیکھا ۔
اداکار محمد علی کی متعدد فلموں میں آنسو بن گئے موتی ،افسانہ زندگی کا ،انصاف اور قانون ،صائقہ،ہمراز،بن بادل برسات ،خدااورمحبت ،گڑیا،بدلتے رشتے،دنیا نہ مانے ،کنیز،صائمہ،وحشی،آس،آئینہ اور صورت ،انسان اور آدمی ،حیدر علی ،دوریاں،بوبی،جب جب پھول کھلے ،صورت اور سیرت ،بدل گیا انسان ،دامن اور چنگاری،پھول میرے گلشن کا ،لوری،بازی اور شعلے جیسی لا زوال فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔
اداکار محمد علی پر زیادہ تر گیت مہدی حسن اور احمد رشدی کے پکچرائز ہوئے ۔
انہوں نے اپنے کیریئر کی کئی لاجواب فلموں میں بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا اور کئی بڑے ایوارڈ حاصل کیے ۔انہوں نے اپنے ابتدائی دس سالہ کیرئیر میں لگا تار 6نگار ایوارڈ حاصل کیے ۔اس کے علاوہ انہوں نے اسپیشل ایوارڈ بھی اپنے نام کئے ۔محمد علی کو اعلیٰ حکومتی ایوارڈ ،پرائیڈ آف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔بھارت سے نوشاد علی ایوارڈ اور دبئی سے الناصر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا ۔اس کے علاوہ 1997ءمیں انہیں پرسنالٹی ایوارڈ بھی ملا ۔اس کے علاوہ محمد علی شہنشاہ جذبات کا اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی اداکار ہیں ۔اداکارمحمد علی کو برطانیہ کی بھی شہریت حاصل تھی لیکن وہ ساری زندگی پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے ۔اس کے علاوہ وہ اسلامی اقدار وروایات کے بہت بڑے حامی تھے اور ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔
محمد علی اور زیبا کی شہرت دیکھ کر بھارتی ہدایت کار منوج کمار نے اپنی فلم "کلرک”میں سائن کیا ۔
فلموں کے بعد وہ مکمل طور پر سماجی کاموں میں مصروف ہو گئے ۔
1997ءمیں انہوں نے "علی زیب فاؤنڈیشن”کے نام سے ایک رفاہی ادارہ بنایا جس میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔محمد علی نے اپنے عہد میں ماسکو میں ہندوستان کے خلاف مشرقی پاکستان میں قید جنگی قیدیوں کے حق میں مظاہرہ کیا ۔
وہ پاکستان فلم انڈسٹری کے واحد اداکار تھے جن کے گھر پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبد العزیز نے قیام کیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو اور صدر ضیا ءکے دور میں اداکار محمد علی کو خاص مقام حاصل رہا ۔
صدر ضیاء الحق بھارت کے دورے پر گئے تو اداکار محمد علی اور ان کی اہلیہ زیبا بیگم بھی ان کے ساتھ گئے۔وہاں انہوں نے اندرا گاندھی کے گھر قیام کیا۔آخری دنوں میں اداکار محمد علی دل اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو گئے ۔بالآخرفن کی بلندیوں پر چمکنے والا یہ ستارہ 19مارچ 2006ءمیں ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا (ان للہ وان الیہ راجعون)