شہزاد اکبر کا استعفیٰ اچھا چھٹکارا ہے،سربراہ براڈ شیٹ

0
27

براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے وزیراعظم کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے استعفے کو اچھا چھٹکارا قرار دیدیا ہے۔

باغی ٹی وی : سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کاوے موسوی نے شہزاد اکبر کے استعفے کو ‘چھٹکارا’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس شخص کی قانون کی حکمرانی، عدالتی احکامات کی تعمیل، یا بدعنوانی کی تحقیقات سے کوئی وابستگی نہیں تھی۔


کاوے موسوی نے لکھا کہ شہزاد اکبر نے نیب کی طرف سے مجھ سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی بدعنوانی کے خلاف ملکی یا بین الاقوامی جدوجہد میں کوئی ساکھ نہیں ہے۔

استعفیٰ کافی نہیں، شہزاد اکبر کی نااہلیوں پر مقدمہ درج کیا جائے، مبشر لقمان

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے استعفیٰ دے دیا ہے شہزاد اکبر نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو بھجوایا ہے اور خود سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس بات کی تصدیق کی ہے شہبزاد اکبر کا کہنا تھا کہ میں نے بطور مشیر اپنا استعفیٰ آج وزیراعظم کو بھجوا دیا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ پی ٹی آئی کے منشور کے مطابق احتساب کا عمل وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں جاری رہے گا۔ میں پارٹی سے وابستہ رہوں گا اور ممبر کی حیثیت سے اپنا حصہ ڈالتا رہوں گا۔

شہباز شریف کا مقدمہ براہ راست نشر ہونا چاہیے، فواد چوہدری

شہزاد اکبر کے حوالہ سے تحریک انصاف کے اندر بھی تشویش پائی جاتی تھی کہ شہزاد اکبر احتساب کے مشیر بنا دیئے گئے اور بلند و بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں لیکن ابھی تک کسی کا کوئی احتساب نہیں ہوا، نہ ہی کسی سے کوئی برآمد گی ہوئی، شہزاد اکبر نے چند روز قبل بھی لاہور میں شریف فیملی کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی

سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کی ہے اور کہا کہ شہزاد اکبر مستعفی ہو گئے انہیں ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے، شہزاد اکبر سے براڈ شیٹ اور برطانیہ میں کی گئی ادائیگییوں کی تحقیقات ہونی چاہئے-

خیال رہے کہ برطانوی نژاد کاوے موسوی آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کے استاد رہے جبکہ انٹرنیشنل مصالحتی عدالت میں ثالث کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ تاہم بنیادی طور پر وہ ایک وکیل ہیںان کی کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی پہلی مرتبہ 2000 میں پاکستان آئی تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے نیب کے لئے ان کی خدمات حاصل کی تھیں کاوے موسوی کے مطابق پرویز مشرف چاہتے تھے کہ میاں نواز شریف، بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے بیرونِ ممالک اثاثوں کا سراغ لگا کر لوٹی گئی رقم پاکستان واپس لائی جائے۔ لیکن ہم کسی سیاسی انتقامی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ اس لئے ہم نے واضح کر دیا کہ تھا ہم صرف ان 3 شخصیات کے خلاف تحقیقات نہیں کرینگے۔

الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو دورہ لوئردیرسے روک دیا

ابتدائی بات چیت کے بعد نیب اور حکومت پاکستان کے درمیان ان کا معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت انھیں ان تین شخصیات سمیت دیگر 200 اہداف کی ایک فہرست فراہم کی گئی۔معاہدے کے مطابق نیب نے انھیں مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنا تھیں جن کی بنیاد پر براڈشیٹ ایل ایل سی کو ان افراد کی طرف سے بیرونِ ملک رکھی گئی مبینہ کرپشن کی رقم کا سراغ لگا کر ثبوت فراہم کرنا تھے اور اسے پاکستان واپس لانے میں مدد فراہم کرنا تھی۔

مراکش کے سفیر کی آرمی چیف سے ملاقات

کاوے موسوی کا کہنا تھا کہ نیب نے ہم سے کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں، آپ پیسہ خرچ کریں، ان افراد کے اثاثہ جات کا سراغ لگائیں اور لوٹی ہوئی رقم واپس دلانے میں ہماری مدد کریں۔ کل رقم کا 20 فیصد حصہ آپ کو معاوضے کے طور پر دیا جائے گا۔

کاوے موسوی کے مطابق وہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے پیسے کا سراغ لگا رہے تھے اور انھوں نے مبینہ طور پر کئی بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے موزوں شواہد حاصل کر لئے تھے جن میں سے کئی اکاؤنٹس کو منجمد بھی کروایا گیا تھا ہم نے لاکھوں ڈالرز مالیت کے اکاؤنٹس کا سراغ لگایا۔ اس سے قبل کے وہ ان اکاؤنٹس کو منجمد کروانے کے لئے حرکت میں آتے انھیں دھوکا دہی سے ہٹا دیا گیا۔ یاد رہے کہ نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ سنہ 2003 میں ختم کر دیا تھا۔

چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم کومشیروں سے خبردار کر دیا

Leave a reply