شیخ امام بخش ناسخ کون تھے اور ان کی خدمات کیا ہیں

0
126

*آج – ١٥ ؍ اگست ١٩٣٨*

*لکھنؤ کے ممتاز اور رجحان ساز کلاسیکی شاعر, غالبؔ کے ہم عصر، بانی زبان دان دبستانِ لکھنؤ اور زبان شناس مقبول استاد شاعر” شیخ امام بخش ناسخ ؔ صاحب “ کا یومِ وفات…*

نام *شیخ امام بخش، ناسخ* تخلص۔ *۱۰ ؍اپریل ۱۷۷۲ء* کو *فیض آباد* میں پیدا ہوئے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک شخص مسمیٰ خدا بخش خیمہ دوزنے، جو لاہور کا ایک دولت مند سوداگر تھا اور اس کی کوئی اولاد نہ تھی، ان کو متبنّٰی کرلیا تھا۔ ناسخ سے اسے اولاد کی طرح محبت تھی اور ان کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھا ۔ *محمد عیسیٰ* جو *مصحفیؔ* کے شاگرد تھے ان سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ ناسخ کو ورزش کا بہت شوق تھا۔بڑ ے تن وتوش اور قوی ہیکل آدمی تھے۔ خوراک بہت تھی۔ تمام عمر مجرد رہے۔بہت وضع دار آدمی تھے۔ *غازی الدین حیدر* کے زمانے میں لکھنؤ گئے۔ بادشاہ موصوف ان کو دربار سے متعلق کرنا چاہتے تھے اور *ملک الشعرا* کا خطاب دینا چاہتے تھے۔ ناسخ نے خطاب قبول نہیں کیا۔ بادشاہ کو غصہ آگیا اور *ناسخ* کو لکھنؤ چھوڑنا پڑا۔ *١٥ ؍اگست ۱۸۳۸ء* کو انتقال کرگئے۔ دو دیوان ان کی یادگار ہیں۔
*وزیرؔ،بحرؔ،برقؔ ، رشکؔ، منیرؔ* ان کے شاگرد تھے۔ *ناسخؔ* کو *دبستان لکھنؤ کا بانی زبان دان* اور *زباں شناس* کہا گیا ہے۔تاریخ گوئی میں ان کو خاص ملکہ تھا۔

*ممتاز شاعر امام بخش ناسخ ؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…*

*آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم*
*جاتے رہے ہم جان سے آتے ہی رہے تم*

اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شبِ فرقت میں تو احساں ہوتا

دریائے حسن اور بھی دو ہاتھ بڑھ گیا
انگڑائی اس نے نشے میں لی جب اٹھا کے ہاتھ

*دیکھ کر تجھ کو قدم اٹھ نہیں سکتا اپنا*
*بن گئے صورتِ دیوار ترے کوچے میں*

فُرقتِ یار میں انسان ہوں میں یا کہ سحاب
ہر برس آ کے رلا جاتی ہے برسات مجھے

ہم مے کشوں کو ڈر نہیں مرنے کا محتسب
فردوس میں بھی سنتے ہیں نہرِ شراب ہے

گیا وہ چھوڑ کر رستے میں مجھ کو
اب اس کا نقشِ پا ہے اور میں ہوں

*فرقت قبولِ رشک کے صدمے نہیں قبول*
*کیا آئیں ہم رقیب تیری انجمن میں ہے*

جس قدر ہم سے تم ہوئے نزدیک
اس قدر دور کر دیا ہم کو

*جستجو کرنی ہر اک امر میں نادانی ہے*
*جو کہ پیشانی پہ لکھی ہے وہ پیش آنی ہے*

کام اوروں کے جاری رہیں ناکام رہیں ہم
اب آپ کی سرکار میں کیا کام ہمارا

*رفعت کبھی کسی کی گوارا یہاں نہیں*
*جس سر زمیں کے ہم ہیں وہاں آسماں نہیں*

کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی تلوار
تلوار کی تلوار ہے رفتار کی رفتار

*کس طرح چھوڑوں یکایک تیری زلفوں کا خیال*
*ایک مدت کے یہ کالے ناگ ہیں پالے ہوئے*

لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
نام لے لے کر ترا راتوں کو چلاتا ہوں میں

*معشوقوں سے امیدِ وفا رکھتے ہو ناسخؔ*
*ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ*

منہ آپ کو دکھا نہیں سکتا ہے شرم سے
اس واسطے ہے پیٹھ ادھر آفتاب کی

*خواب ہی میں نظر آ جائے شبِ ہجر کہیں*
*سو مجھے حسرتِ دیدار نے سونے نہ دیا*

سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے

جسم ایسا گھل گیا ہے مجھ مریض عشق کا
دیکھ کر کہتے ہیں سب تعویذ ہے بازو نہیں

تمام عمر یوں ہی ہو گئی بسر اپنی
شبِ فراق گئی روزِ انتظار آیا

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعد وفات
لوگ اکثر مرے جینے کا گماں رکھتے ہیں

وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں

*زندگی زندہ دلی کا ہے نام*
*مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں*

زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل
تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی

*ہیں اشک مری آنکھوں میں قلزم سے زیادہ*
*ہیں داغ مرے سینے میں انجم سے زیادہ*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

*امام بخش ناسخؔ*

Leave a reply