شیر دلان گجرات میاں محمد اکبر اور میاں محمد مسعود اختر

0
44

یہ گجرات کے ایک خاندان میں پیدا ہونے والے دو بہادر بھائیوں میاں اکبر اور میاں مسعود کی ولولہ انگیز داستان حیات ہے۔ ان کے والد محترم الحاج میاں برکت علی صاحب انتہائی وضع دار ایک نیک آدمی تھے اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار معتبر مدبر پنچایتی اور صلح جو مشہور تھے لوگ ان کی خوبیوں کے سبب ان کا بہت احترام کرتے تھے تما ذی شعور ان کی اعلیٰ انتظامی و سماجی صلاحیتوں کے معترف تھے انہیں خوبیوں کی بدولت 19ویں صدی کے شروع میں انہیں عوامی نمائندگی کے لئے آگے لایا گیا اور سن 1920 میں بھر پور عوامی پذیرائی سے میونسپل کمشنر گجرات منتخب ہوئے-

یہ انگریز دور حکومت میں گجرات میں کسی بھی عوامی عہدہ کے لئے براہ راست انتخاب کے نتیجے میں یہ پہلی تقرری تھی بعد ازام میاں برکت علی پہلے منتخب وائس چئیرمین میونسپل کمیٹی بھی بنے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہرت کی منزلیں طے کرتے رہے-

الحاج میاں برکت
الحاج میاں برکت علی کارواباری صلاحیتوں کی سوجھ بوجھ سے بھی مالا مال تھے اور ان کی کاروباری ترقی میں بھی عوامی فلاح و خدمت ان کا مطمع نظر آتا ہے اسی سوچ کے تحت انہوں نے ٹرانسپورٹ کاروبار کا آغاز کیا اور عوام کو معیاری سستی بس فراہم کی اس سے نہ صرف گجرات بلکہ پنجاب بھر کے عوام کو آمدو رفت میں بڑی آسانی حاصل ہو گئی-

الحاج میاں برکت علی نے بحثیت چئیرمین گجرات پنجاب بس سروس کے معاملات کو بخوبی انجام دیا اور ضلع بھر کے ممتاز خاندانوں اور برادریوں کی بھی گجرات پنجاب بس سروس میں بطور ڈائریکٹر نمائندگی کی اور اپنی خدا ترس طبعیت کی بناء پر ملازمین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہو ان کی غلطیوں کو نظرانداز کر کے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے-

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاروبار تقسیم ہو گیا اور ان کے صاحبزادے میں محمد اکبر نے بحثیت چئیرمین پنجاب بس سروس گروپ بی ذمہداری سنبھالی اور کاروباری معاملات کا ادراک رکھنے کے ساتھ میاں محمد اکبر اپنے بزرگوں کی طرح عوامی خدمت کے جذبے سے بھی سرشار تھےاور سیاست ان کی گٹھی میں تھی اور الحاج میاں برکت کے دونوں صاحبزادے میاں محمد اکبر اور میں محمد مسعود اختر سیای معاملات مین والد کی معاونت بھی کرتے تھے-

میاں محمد اکبر نے سن 1962 میں مغربی پاکستان ساز اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اس وقت قانون ساز اسمبلی ممبران کا انتخاب بی ڈی ممبران کیا کرتے تھے حلقہ انتخاب میں کُل باسٹھ پی ڈی مبران تھے جن مین سے پچپن نے میاں محمد اکبر کو ووٹ دیئے اور یوں میاں محمد اکبر نے ضلع بھر میں اپنی سیاسی بصیرت کی دھاک بٹھا دی-

میاں محمد اکبر
میاں محمد اکبر ایک غیر متزلزل آہنی عزم رکھنے والے بہادر اور نڈر انسان تھے وہ اپنے سیاسی حریفوں سے ببانگ دہل بال خوف و خطر ٹکرائے مگر کبھی بھی سیاسی اختلافات کو ذاتیات تک نہ لائے اور کبھی انا کا مسئلہ نہ بنایا وہ دوستوں کے دوست اور مخالفوں کے دل میں بھی اپنا احترام رکھتے تھے میاں محمد اکبر سھر انگیز شخصیت کے مالک تھے جو بھی ان سے ایک بار ملتا دوسری ملاقات کی بھی چاہ رکھتا اور پھر ہمیشہ کے لئے ان کا گرویدہ بن جاتا-

میاں محمد اکبر کو تعلقات بنانے اوراور نبھانے میں ملکہ حاصل تھا سن 1962 کے انتخابات میں منتخب ہونے والے بی ڈی ممبران جنہیں آجکل ناظم چئیرمین کہا جاتا ہے میں 6 آزاد 3 چوہدری ظہور الہیٰ شہید کے حامی جبکہ باقی تمام 51 ممبران نے میاں محمد اکبر کے حق میں ووٹ دیا-

میاں محمد اکبر سیاسی افق پر ایک روشن ستارہ بن کر اُبھرے اور بلا تفریق ذات پات برادری عوامی خدمت کو اپنا شعار بنایا یہی وہ خوبی تھی کہ غیر کاشتکار ہونے کے باوجود انہیں تمام برادریوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی میاں محمد اکبر اکثر کہا کرتے تھے کہ حقیقی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے جبکہ تمام لوگ انسانی برادری ہیں یہ وہ وقت تھا جب نوابزادگان طویل عرصہ سے ضلوع گجرات کے سیاہ وسفید کے مالک چلے آ رہے تھے-

پگانوالہ اور جوڑا خاندان بھی بھر پور اثرو رسوخ کے مالک تھے مگر تمام تر مخالفتوں کے باوجود میاں محمد اکبر اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر بھر پور کامیابی سے ہمکنار ہوئے یہ ان کے بے لوث خدمات کا عوامی اعتراف تھا میاں محمد اکبر سن 1962 میں مختصر اپوزیشن کا حصہ تھے حمزہ صاحب، تابش علوری، خواجہ محمد صفدر ان کے ساتھ اپوزیشن بینچوں پر تھے- خواجہ صفدر میاں ، محمد اکبر کے قریبی رفقاء میں رہے اور میاں محمد اکبر کی اچانک بے وقت رحلت کے بعد میاں اکبر فیملی کے سرپرست رہے-

واقفان حال اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے زعماء کہتے ہیں کہ اگر گورنر پنجاب میر محمد خان ٹکٹ میاں محمد اکبر کو دے دیتے تو ضلع گجرات کی سیاست میں مزید بہتری آ سکتی تھی مگر ٹکٹ میاں محمد اختر پگانوالہ جو کراچی کے لئے دے دیا گیا اور انہوں نے میاں محمد اکبر کی نیک نامی کو استعمال کرتے ہوئے بلا مقابلہ کامیابی حاصل کی میاں محمد اکبر کے استفسار پر بتایا گیا کہ ٹکٹ آپ کے بھائی میاں اختر پگانوالہ کو دے دی گئی ہے یہی وہ مرحلہ تھا جب میاں محمد اکبر نے نوابزادگان کے ساتھ حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کی بجائے اُٹھ کر چوہدری ظہور الہیٰ شہید کی طرف دست رفاقت بڑھایا اور مشترکہ انتخابی مہم کا آغاز کیا میاں محمد اکبر چوہدری ظہور الہیٰ گوجروں کے حلقہ میں لے گئے اور انہیں قریہ قریہ متعارف کرایا-

چوہدری ظہور الہیٰ شہید بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے چوہدری ظہور الہیٰ شہید کے بعد ان کے بھتیجے چوہدری تجمل حسین ، صاحبزادے چوہدری وجاہت حسین پوتے چوہدری حسین الہیٰ کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں نوابزادگان کی بے رخی کے باوجود گوجر برادری میاں اکبر خاندان کے ساتھ بے پناہ انس و محبت رکھتی ہے جو آج بھی قائم ہے صد حیف کچھ نادیدہ قوتوں حاسدین کو ضکع کے عوام کی ترقی فلاح و بہبود اور رواداری کی سیات کا یہ چلن پسند نہ آیا اور پھر وہ دردناک المیہ رونما ہوا کہ جس سے انسانیت کانپ اُٹھی 25 اکتوبر 1970 کو میاں محمد اکبر کو ان کے بھائی میاں محمد مسعود اختر سُسر میجر محمد عبداللہ محافظ سکندر کے ہمراہ بےدردی سے اجتماعی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا-

میاں صاحبان کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے لاکھوں لوگ شریک ہوئے اور اپنے محبوب قائدین کی بے وقت رحلت پر غم و حسرت کی تصویر بنے نظر آئے ایک ہفتہ تک شہر کے تمام بازار بند رہے میاں محمد اکبر اور میاں محمد مسعود اختر حقیقی معنوں میں یکجان دو قالب تھے انہوں نے یہ بھائی چارہ آخری دم تک خوب نبھایا-

میاں محمد مسعود اختر
میاں صاحبان کے اجتماعی قتل کا اندہناک سانحہ خاندان پر انتہائی قرب و مصائب کا سبب بنا سکول جاتے 6 معصوم بچوں نے اپنا وقت نہایت خوف کی کیفیت میں گزارا ان کے سامنے زندگی کے طویل کٹھن مراحل تھے اب غمناک شکستہخاندان کی باگ دوڑ تین پردیہ نشین خواتین اور کالج میں زیر تعلیم ایک ک عمر نوجوان کے کندھوں پر آن پڑی اور یہ نوجوان پُر عزم اور باہمت تھا مگر ابھی معاملات زندگانی اور سیایس اثرارو رموز سے واقف نہ تھا آفرین ہے اس باہمت نوجوان پر جس نے تمام تر غم و الم اور نامساعد حالات کے باوجود سیاسی محاز پر سے خلوص لگن کا اعلٰی مظاہرہ تھا-

خاندانی علم تھامے رکھا اور تن تنہا اپہنے بزرگوں سے خلوص سے اپنے بزرگوں کے عوامی فلاحی مشن کو جاری رکھا غم میں ڈوبے ایل خان کے سامنے ایک طویل اور صبر آزما سفر تھا وہ دل کی اتھاہ گہرائیوں تک عظیم سدقے سے ہل چکے تھے نہ صرف میاں اکبر خاندان بلکہ تمام اہل علاقہ کے لئے یہ ناگہانی صدمہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا-بربریت کے اس شرمناک اور بزدلانہ فعال کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا جس مین 4 بے گناہ انسانون کو بڑی سفاکی سے دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہر آنے والا 25 اکتوبر کا دن 1970 کے اس قومی المیہ کی یاد لاتا رہے گا-جس کی قومی سطح پر بھر پور مزمت کی گئی آزمائش کی گھڑی میں میاں اکبر خاندان کے ساتھ وسیع حلقہ احباب ،دوستوں اتحادیوں اور خیرخوایوں نے بڑا ساتھ نبھایا-

پھر دنیا سنے اس خاندان کو نہایت باوقار طریقہ سے گھمبیر صورتحال سے نکلتے دیکھا یہ بدرجہ اتم پختہ ایمان اعتماد اور مشن اور نامساعد حالات کے باوجود سیاسی محاذ پر سے پر خلوص لگن کا اعلیٰ مظاہرہ تھا اولیٰ تربیت کا اثر ان کی اولاد مین دیکھا جا سکتا ہے انہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر سب کا بھلا کیا کسی کا بپرا نہیں چاہا اور نہ کبھی عیدے و اختیار کا غلط استعمال کیا بلکہ حکومت و سماجی پوزیشن کو خاندانی روایات کے مطابق فلاح عامہ کا ذریعہ بنایا آج خاندان سیاسی و سماجی خدمت کے 100 سال پورے کر چکا ہے جس مین میاں محمد اکبر اور میان محمد مسعود اختر کا سانحہ ارتحال کے بعد اس نصف صدی میں شامل ہے-

یہ فیصلہ کرنے کے لئے دنیا ایک مشکل اسکریننگ سنٹر ہے کہ انہوں نے اس سفر کو کیسے آگے بڑھایا۔ میاں برکت خاندان کی جانشین نسلوں کو سلام۔ ہم صحیح ، غلط یا اس دور تک پہنچے ہیں ، اب یہ نوجوان نسل پر منحصر ہے۔ انہیں اپنے بڑوں کے انہیں اپنے بڑوں کے مشن کو آگے کیسے بڑھانا ہے ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔

میاں ہارون مسعود اور گجرات کے میاں عمران مسعود اس خاندان کے سپوت ہین جو اپنے فلاحی منصوبوں اور سیاسی کیریئر کے لئے جانا جاتا ہے۔

میاں ہارون مسعود


میاں عمران مسعود

تحریر: چودھری مقصود انور

Leave a reply