سیاسی محاذ گرم، مختاریہ گل ود گئی اے،

0
25

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ جیسے جیسے مارچ قریب آرہا ہے ۔ حالات ، واقعات اور منظر نامہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ ویسے تو روز ہی قومی اسمبلی میں آجکل ہنگامہ ہورہا ہے ۔ آج بھی ہوا ۔ جس سے یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ حکومت دھونس اور زبردستی سے تو ایوان کو چلاسکتی ہے ۔ ویسے اب اسمبلی چلتی نہیں دیکھائی دیتی ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ پھر اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز ایک طرف اور عمران خان ایک طرف ۔۔۔ ۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں ۔ کہ بات دعاؤں سے بدعاؤں تک پہنچ چکی ہے ۔ بات منت سماجت سے گالم گلوچ تک پہنچ چکی ہے ۔ کیونکہ ایک جانب بجلی اور دوسری جانب پیڑول کی قیمتیں بڑھا بڑھا کپتان نے عوام کو دن میں تارے دیکھا دیئے ہیں ۔ ۔ تو دوسری جانب اس وقت سیاسی محاذ خاصا گرم ہوچکا ہے کہیں ان ہاؤس تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں اور کہیں لانگ مارچ کے انتظامات جاری ہیں۔ حکومت اپنے لئے تین ماہ اہم قرار دے رہی ہے اور اپوزیشن حکومت کو ایک دن بھی دینے کے لئے تیار نہیں ایسے میں نوازشریف کی نا اہلی ختم کرانے کے لئے درخواست دینے کے فیصلے نے ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔ ۔ اسی لیے تیزی سے رونما ہونے والے واقعات کافی حیران کن ہیں۔ سات سال بعد فارنگ فنڈنگ کیس میں سکروٹنی رپورٹ کا سامنے آنا۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں حکومت کی واضح شکست، منی بجٹ منظور کرانے میں حد درجہ بڑھتی مشکلات، نوازشریف کی نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ، آصف علی زرداری کا متحرک ہونا۔ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی جانب سے لانگ مارچ کے فیصلے، ایسے عوامل ہیں جو اس بات کا اشارہ ہیں کہ حالات نارمل نہیں۔ اس لیے لوگ بڑے وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے برے دنوں کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے۔؟

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ میرے حساب سے ایک بار پھر عدالتی جنگ کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ اور کورٹ رپورٹرز کی چاندی ہونے والی ہے ۔ کیونکہ ایک جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نوازشریف کی تاحیات نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ جا رہے ہیں تو حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے شہباز شریف کی نا اہلی کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ یعنی دونوں طرف شریف برادران ہیں، ایک طرف نا اہلی ختم کرانے کی کوشش ہے اور دوسری طرف نا اہل کرانے کی۔۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ اس حوالے سے بہت سے سازشی تھیوریاں مارکیٹ میں چل رہی ہیں کہ دونوں اطراف سے عدالتی جنگ کے لئے یہی وقت کیوں چنا گیا ہے۔ خاص طور پر نوازشریف کی تا حیات نا اہلی ختم کرانے کے لئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اب ہی کیوں متحرک ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو عام انتخابات ہونے میں تقریباً ڈیڑھ برس کا عرصہ رہ گیا ہے۔ حکومت نے مدت پوری نہ کی تو انتخابات پہلے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا نوازشریف کو تا حیات نا اہلی سے نکال کر انہیں اگلے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ نکالی جا رہی ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ویسے تو پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اب ایک بار پھر لوگ ہواؤں کا رخ دیکھنا شروع ہوگئے ہیں کہ کس طرف کو یہ رواں دواں ہیں ۔ کیونکہ چین ، سعودی عرب اور ترکی کی میاں صاحب کے لیے سفارشوں کی خبریں بھی بڑے زور و شور سے جاری ہیں ۔ فی الحال نوازشریف کا معاملہ بہت زیادہ ہائی پروفائل بن چکا ہے۔ اس پر سب کی نظریں جمی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی توجہ اس پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ کیونکہ نوازشریف کی نا اہلی اور سزا ختم ہو جاتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا سیاسی دھماکہ ہوگا۔ مسلم لیگ ن کو پھر روکنا شاید ممکن نہ رہے۔ آج جو پرویز خٹک کے حوالے سے جو چیزیں سامنے آرہی ہیں اور جو عثمان بزادر کے دیے گئے ڈنر سے تیس سے زائد ارکان غائب رہے ۔ تو کل پرویز خٹک کے بھانجوں جلال خٹک اور بلال خٹک نے پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ان کے علاوہ بھی پی ٹی آئی والے دھڑا دھڑ پیپلز پارٹی ، جے یوآئی ف سمیت دیگر کی جانب بھاگے جا رہے ہیں ۔ یہ سب اس جانب اشارہ ہے کہ خوب اکھاڑ پچھاڑ چل رہی ہے ۔ کیونکہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خاص طور پر پنجاب میں الیکشن لڑنا اور جیتنا تقریباً ناممکن دیکھائی دینا شروع ہوگیا ہے ۔ ظاہر ہے حکومت اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ بار کی جانب سے نااہلی والی درخواست کی بھرپور مخالفت کرے گی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہدو فروری کو سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہوں گے۔ وہ اس بنچ میں بھی شامل تھے جس نے نوازشریف کو نا اہل قرار دیا تھا۔ احسن بھون نے اگرچہ یہ خواہش ظاہر کی ہے نوازشریف کی نا اہلی کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے بنچ میں عمر عطا بندیال شامل ہوں۔ تاہم یہ فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔ احسن بھون نے اس کی سماعت کے لئے فل بنچ بنانے کی درخواست بھی کی ہے کیونکہ اس درخواست میں ایسے نکات اٹھائے جا رہے ہیں، جن کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔ سپریم کورٹ جب اس کیس کا فیصلہ دے گی تو یقیناً بہت سے وہ معاملات بھی واضح ہو جائیں گے جن کے بارے میں ابھی ابہام پایا جاتا ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے کسی شخص کو نمائندگی کے لئے تا حیات نا اہل قرار دینا آئین کی بنیادی روح اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اگر سپریم کورٹ کیس کی سماعت کے بعد اس نکتے کو مان لیتی ہے تو یہ ایک نئی تاریخ رقم ہو گی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پر سوال ہے کہ کیا یہ معاملہ اتنا ہی آسان ہے؟ سپریم کورٹ کے سامنے اپنا ہی فیصلہ پڑا ہے، جس پر نظرثانی کی اپیل بھی خارج ہو چکی ہے۔ ایسے ہی ایک کیس میں جہانگیر ترین بھی نا اہل قرار پائے اور ان کی نظر ثانی اپیل بھی خارج ہو گئی تھی۔ یقیناً یہ درخواست اگر سماعت کے لئے منظور ہو جاتی ہے تو ایک بہت اہم قانونی و آئینی نکتے کی وضاحت کا باعث بن جائے گی۔ درخواست کے حق میں فیصلہ آیا تو ملک کا سیاسی منظر نامہ ہی تبدیل ہو جائے گا اور اگر رد ہو گئی تو نوازشریف سمیت جہانگیر ترین کی سیاسی زندگی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔ ابھی تو ن لیگی اس امید میں مبتلا ہیں کہ نوازشریف اہل ہو کر سیاست اور ملک میں واپس آئیں گے۔ اگر ان کی نا اہلی پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت ہو گئی تو تمام امیدیں دم توڑ جائیں گی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت حکومت اور کسی سے اتنی خوفزدہ نہیں جتنی نوازشریف سے ہے۔ وزراء یہ جانتے ہیں وہ نوازشریف کو کسی بھی قانون کے تحت پاکستان واپس نہیں لا سکتے مگر اس کے باوجود وہ تاثر یہی دیتے ہیں جیسے نوازشریف کو وطن واپس لانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہوں۔ دوسری طرف حکومت شہباز شریف کو نا اہل کرانے کے لئے سرگرم ہو چکی ہے۔ اگرچہ ماہرین قانون نے حکومت کی اس خواہش کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے کیونکہ شہباز شریف نے اپنے بھائی نوازشریف کو زبردستی ملک سے فرار نہیں کرایا تھا بلکہ وہ عدالت کے حکم اور حکومت کی دی گئی میڈیکل رپورٹوں کے بعد بیرون ملک روانہ ہوئے تھے۔ میرے خیال سے یہ صرف ایک سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی یہ کیس جلد ختم ہونے والا نہیں، فیصلہ ہوتے ہوتے کئی برس بھی گزر سکتے ہیں۔ صاف لگ رہا ہے حکومت صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے ایک تیرسے دو شکار کرنا چاہتی ہے۔ ایک طرف یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ نوازشریف کو واپس لانے کے لئے وہ بہت سنجیدہ ہے اور دوسری طرف شہباز شریف کو ایک جھوٹا اور وعدہ خلاف شخص ثابت کرنا چاہتی ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پھر آج نیپرا نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں چار روپے تیس پیسے کا اضافہ کر دیا ہے ۔ بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ نومبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا۔ ویسے ابھی عوام گزشتہ ماہ جو بجلی کے بل ملے تھے اس shock باہر نہیں نکلی ہے جو یہ نیا بم عوام پر پھوڑ دیا گیا ہے ۔ ۔ پھر پیڑول کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پیٹرول 150 روپے فی لیٹر ہونے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ آئل مارکیٹنگ ذرائع کا کہناہےکہ 16 جنوری سے پیٹرولیم قیمتیں 6 روپے لیٹر تک بڑھنے کا امکان ہے جس میں پیٹرول 5 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 6 روپے فی لیٹر تک جانے کا تخمینہ ہے۔ اس کے بعد کل جو اختر مینگل نے کہا تھا وہ بات یاد آجاتی ہے کہ اس حکومت صرف موت پر ٹیکس نہیں لگایا ۔ باقی تو انھوں نے کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ یاد رکھیں ابھی منی بجٹ کے اثرات آنے ہیں ۔ اس کے بعد عوام کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ دیکھا جائے تو آئی ایم ایف ماضی میں بھی یہ مطالبہ کرتا رہا مگر کسی نے غیر مقبول فیصلے کرنے کی ہمت نہیں کی۔ ایسے فیصلے کئے جن کا فائدہ عوام کو نہیں صرف اشرافیہ کو پہنچا ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ نئے پاکستان میں ہر نیا سال گذشتہ برس کی نسبت زیادہ مہنگا ثابت ہوا ہے ۔ ۔ آپ ان کی فنکاریاں دیکھیں کہ پنجاب میں ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کو ختم کرکے عمران خان 400 ارب روپے سے انشورنس اور پرائیویٹ کلینکس کا کاروبار چمکانے جارہے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں کسانوں کوکھاد کی قلت کا سامنا ہے کھاد افغانستان میں سمگل کی جا رہی ہے۔ آج عمران خان نے اس پر سخت نوٹس لے لیا ہے اور اب کسان مزید پریشان ہوگئے ہیں ۔ ۔ عمران خان تبدیلی کانعرہ لگاکر سیاست میں آئے تھے۔ دعویٰ ان کا یہ تھا کہ وہ اقتدار میں آکرملک کے لئے معاشی وسماجی حالات،سیاسی ماحول کو تبدیل کردیں گے۔ روزگار،خوشحالی اورانصاف کادوردورہ ہوگا۔اقتدار میں آنے کے بعد مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا ۔ تبدیلی مثبت کی بجائے منفی انداز میں رونما ہوئی۔

Leave a reply