سیاسی سونامی تبدیلی کو بہا لے جائے گا ؟؟ تحریر: نوید شیخ

0
18

مائنس عمران خان اور مائنس عثمان بزدار کی ہوا چل پڑی ہے اور اس بار لگتا ہے کہ جتنے مرضی کالے بکروں کی بلی چڑھا دی جائے معاملات حل نہ ہوں گے۔ کیونکہ اپوزیشن بڑی ہی پراعتماد ہے ۔ نمبر گیم کے حوالے سے جو اطلاعات آرہی ہیں وہ حکومتی کیمپوں کے لیے بہت ہی خوفناک اور درد ناک دیکھائی دیتی ہے ۔۔ آج پریس کانفرنس کے دوران اپوزیشن کے تین بڑوں آصف علی زرادری ، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان نے جہاں حکومت کو خوب رگڑا لگایا وہاں یہ بھی دعوی کیا کہ ہم ارکان کو ایوان میں لائیں گے اور 172 سے زائد ووٹ لیں گے۔

۔ اس وقت عمران خان اپنی حکومت کو بچانے کی خاطر مسلسل ہاتھ پاوں مار رہے ہیں ۔ ملاقاتوں ، ٹیلی فونز ، نئے وعدوں اور آفرز کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ کپتان کو وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا پڑ رہا ہے کیونکہ بیک وقت پنجاب اور وفاق پر حملہ ہوچکا ہے ۔ اسی لیے بہت سوں کے خیال میں پاکستان تبدیلی کی جانب گامزن ہوگیا ہے ۔۔ فی الحال آج جو نئی صورتحال بننے کے بعد پہلا قدم کپتان نے اٹھایا وہ یہ تھا کہ اپنے حامی یوٹیوبرز کو بلا کر عالمی سازش والا بیانیہ تشکیل دینا شروع کردیا ہے ۔ پھر شہباز گل نے پوری کی پوری پریس کانفرنس ہی اسی ایک پوائنٹ پر داغ دی ہے ۔ ۔ مگر اس سازشی تھیوری کا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے بھی تابڑ توڑ حملے کردیے ہیں انکا کہنا تھا کہ حکومت نے اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ چن دیا ، کیا یہ غیر ملکی سازش ہے ۔ حکومت کی چینی ،ادویات ، مالم جبکہ ،پشاور میٹرو اور بلین ٹری منصوبہ میں کرپشن کیا بین الاقوامی سازش ہے ، اس سے زیادہ احمقانہ بات نہیں ہو سکتی ۔ خارجہ محاذ پر جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا انہیں ناراض کردیا گیا ۔ عمران خان نے سی پیک میں کرپشن کے بے جا الزامات لگا کر چین کو ناراض کیا ۔ یورپی یونین کے خلاف بیان دیا ۔ ۔ اس وقت عمران خان کے حامی خاص طور پر ٹویٹر پر اس سازشی تھیوری پر یقین کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں ۔ مگر بہت سے لوگ اس پوائنٹ سے متفق نہیں یہاں تک کہ بہت سے حکومت کے حامی صحافیوں کی رائے بھی آج کچھ تبدیل دیکھائی دے رہی ہے ۔ ۔ سب سے پہلے پنجاب کی بات کی جائے تو ایک کیچڑی پکی دیکھائی دیتی ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ کنفوژین ہی کنفوژین ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ علیم خان اور جہانگیر ترین گروپ عثمان بزدار کے نام پر راضی نہیں ۔ ق لیگ اور عثمان بزدار علیم خان کو قبول نہیں کرناچاہتے ۔ تحریک انصاف کے اپنے سینئر وزراء کو بھی بزدار قبول نہیں ۔ یوں جس کو بھی عمران خان ناراض کریں گے وہ اپوزیشن کے دروازہ کھڑا سکتا ہے ۔

۔ فی الحال عثمان بزدار کی جانب سے دیا گیا استعفی وزیراعظم عمران خان نے قبول نہیں کیا ہے اور کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی ہے۔ اس پر عثمان بزدار کا کہنا تھاکہ استعفے سے معاملات حل ہوتےہیں تو وزارت اعلیٰ چھوڑ دیتا ہوں۔ عمران خان اور پارٹی کے ساتھ ہوں اور رہوں گا۔ ۔ جبکہ بزدار کے حوالے سے کپتان نے پھر یہ بات دہرائی ہے کہ عثمان بزدار ایک آسان ٹارگٹ ہیں، جو وزیراعلی کے امیدوار ہیں صرف انہیں عثمان بزدار برا لگتا ہے۔۔ اس پر جہانگیر ترین گروپ نے اجلاس کے بعد اعلان کیا ہے کہ ہمارا ایک ایک رکن متفق ہے کہ مائنس عثمان بزدار سے آگے بات چلے گی۔ یعنی پہلے عثمان بزدار کو گھر بھیجیں پھر بات کریں گے ۔ اس حوالے سے نعمان لنگڑیال نے اعلان کیا ہے کہ ترین گروپ متحد ہے۔ ہم نےعبدالعلیم خان کوبھی بتادیاکہ وہ جہانگیرترین کےفیصلوں کےپابندہوں گے، تمام اختیارات جہانگیرترین کے پاس ہیں، ان کے فیصلے سے کسی کواختلاف نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں دو بڑی جماعتوں کے بعد ترین گروپ کی تیسری بڑی اکثریت ہے۔۔ اس حوالے سے یہ بھی خبریں ہیں کہ علیم خان لندن جا رہے ہیں ۔ دنیا نیوز کی دعوے کے مطابق جہاں ان کی جہانگیرترین کے علاوہ نواز شریف سے بھی ملاقات متوقع ہے ۔۔ وفاق کی بات کی جائے تو حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے اپوزیشن کے آٹھ لوگ توڑ لیے ہیں ۔ اورانھوں نے وزیروں سے ملاقاتیں کرکے معاملات طے بھی کر لیے ہیں ۔ ۔ بہرحال اپوزیشن نے اپنے لوگوں کو تین ہفتے کے لیے اسلام آباد سے نہ جانے کی ہدایت کردی ہے ۔ بلکہ تنبیہ کردی ہے کہ غیرحاضری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

۔ ساتھ ہی حکومت کی جانب سے پکڑ دھکڑ کی صورتحال سے بچنے کے لیے مختلف سینیر لوگوں کی سربراہی میں گروپس بنا دیے گئے ہیں جس کے بعد وہ اپنے اپنے گروپ کے ایم این ایز کے ذمہ دار ہوں گے کہ وہ غائب نہ کیے جاسکیں ۔ ساتھ ہی اپوزیشن نے اپنے لوگوں کو زیادہ وقت پارلیمنٹ لاجز میں رہنے کی ہدایت بھی کر دی ہے ۔ واٹس ایپ گروپس بھی تشکیل کروادیے گئے ہیں ۔ جس کے بعد اب سے روزانہ کی بنیاد پر ان کی حاضری بھی لگوائی جائے گی ۔ ۔ اپوزیشن کے دعووں کے مطابق ان کے پاس 28سے زائد پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے ساتھ ایک اتحادی بھی ہے ۔ ذرائع کا کہناہےکہ آئی بی کے توسط سے تحریک انصاف کے 28 ممبران کے نام وزیراعظم کے علم میں ہیں۔ پھر چڑیل کی یہ بھی مخبریاں ہیں کہ اپوزیشن نے 197 سے 202 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کل کراچی کا ایک روزہ دورہ کررہے ہیں جہاں وہ ایم کیوایم سے ملیں گے ۔ لگتا یہ ہی ہے کہ ہر حال میں ایم کیو ایم کو راضی کیا جائے گا ۔ ۔ پھر عمران خان کی اٹارنی جنرل آف پاکستان سے اہم ملاقات ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے متعلق قانونی نکات پر بریفنگ دی ہے ۔ اس حوالے اڑتی اڑتی خبر ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی بات بھی کارڈز پر موجود ہے ۔ ۔ اس وقت وزیروں اور عمران خان کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ پریشانی کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ جہاں عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت کہیں نہیں جارہی بلکہ مزید تگڑی ہو کر آئے گی۔ تو دوسری جانب فرماتے ہیں اپوزیشن کے پیچھے ایک نہیں کئی بیرونی ہاتھ ہیں، ارکان کو 18، 18 کروڑ کی آفرز کی جارہی ہیں میں نے ارکان سے کہا ان سے پیسے لیں اور غریبوں میں بانٹ دیں، جواب میں ہماری بھی حکمت عملی تیار ہے، کپتان ایک دم اپنی حکمت عملی نہیں بتاتا، نومبر بہت دور ہے، جب وقت آئے گا تو فیصلہ کریں گے۔

۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی مارچ کے قافلے کو اسلام آباد پولیس نے ٹی چوک پر روک لیا جس کے بعد بلاول بھٹو بھی راستے میں رک گئے۔۔ اطلاعات کے مطابق جس کنٹینر پر بلاول بھٹو سوار ہیں اس سے پیچھے موجود گاڑیوں کو مختلف مقامات پر رکاوٹیں لگا کر روکا گیا جس کے بعد بلاول نے بھی آگے بڑھنے سے انکار کردیا ہے ۔۔ اس حوالے سے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہمارے کارکنوں کو جگہ جگہ رکاوٹیں لگا کر روکا گیا ہے، فیض آباد بلاک کریں گے، ڈی چوک بھی جائیں گے۔۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں عمران خان کر کیا سکتے ہیں ۔ تو اس جواب یہ ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ بے انتہا اختیارات سمیت فنڈز، وزارتیں اور دینے کو بہت کچھ ہے ۔ کیونکہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے میں کافی دن ہیں تو کرنے کو تو وہ بہت کچھ سکتے ہیں ۔ جیسے نیب کا استعمال ، ایف آئی اے کا استعمال ، پولیس کا استعمال وغیرہ وغیرہ ۔ پھر حکومت کے پاس ابھی بھی بہت سی ای ٹی ایمز ایسی ہیں جو آج مارکیٹ میں نکل آئیں تو روپے تو دور کی بات ڈالرز کی ریل پیل ہوسکتی ہے ۔ اس سے پھانسا پلٹ سکتا ہے ۔ خاص طور پر جو بلوچستان سے سینیٹرز پی ٹی آئی نے الیکٹ کروائے ہیں وہ میدان میں نکل آئے تو بہت سے لوگوں کی زندگی بھر کی دیہاڑیاں بھی لگ سکتی ہیں ۔ اس لیے ممکن ہے کہاگر بات چیت سے معاملات نہ حل ہوئے ۔ تو آنے والوں دنوں میں گرفتاریاں بھی ہوں ۔ اغواء بھی ہوں ۔ بندے بھی غائب ہوں ۔ کیونکہ بلاول کے لانگ مارچ کو روک کر کپتان نے سنگنل دے دیا ہے کہ وہ confrontationکے موڈ میں ہیں ۔

۔ میرے حساب سے کپتان کے پاس safe exit کا ایک ہی آپشن ہے کہ وہ اسمبلیاں توڑ دیں ۔ اور قبل ازوقت الیکشن کروا دیں کیونکہ دونوں صورتوں میں حکومت جاتی دیکھائی دیتی ہ۔ اس میں ہی کپتان کی عزت ہے ۔ ورنہ جتنا یہ زور لگائیں گے یا زبردستی کریں گے تو اتنا ہی کام خراب بھی ہوگا ۔ ۔ یاد رکھیں ماحول کی کشیدگی ہمیشہ اپوزیشن کے حق میں جاتی ہے جبکہ ٹھہراؤ ہمیشہ حکومت کے لئے ساز گار ثابت ہوتا ہے۔ یہ تاثر دینے سے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بھی ہزاروں لاکھوں افراد موجود ہیں۔ تو یاد رکھنا چاہیے اتنے ہی لوگ اپوزیشن کے پاس بھی ہیں ۔ ۔ یاد رکھیں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کپتان کے اپنے کرم ہیں ۔ کیونکہ جب آپ پارٹی سمیت حکومت کو ڈکیٹر شپ کی طرز پر چلائیں گے جب آپ اپنے اردگرد صرف خوشامدی رکھیں گے ۔ جب آپکو صرف ہاں میں ہاں ملانا پسند ہو۔ جب آپکو میڈیا سمیت کسی قسم کی تنقید گوارا نہ ہو۔ اوپر سے آپ کی کارکردگی صفر ہو ۔ تو پھر یہ سب کچھ جمہوریت میں نہیں چل سکتا ۔ پھر جب آپ جتنے مرضی طاقتور ہوں اخلاقی جواز کے بغیر حکومت نہیں چلتی ۔

Leave a reply