مزید دیکھیں

مقبول

اہم شخصیات بارے توہین آمیز ویڈیوز بنانے پر درجنوں مقدمات

لاہور: لاہور میں اہم شخصیات سے متعلق توہین آمیز...

چاقوحملے کے بعد سیف علی خان نے خریدار ایک اور گھر

رواں برس چاقو حملے کا شکار ہونے والے معروف...

بھارتی آبی جارحیت،پاکستان کا مضبوط جوابی وار.تحریر:جان محمد رمضان

پاکستان نے بھارت کے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے...

تابوت میں موجود پوپ فرانسس کی تصاویر جاری

ویٹیکن نے گزشتہ روز 88 سال کی عمر میں...

خاموش فون . ایک بڑا نقصان!

خاموش فون. ایک بڑا نقصان!
تحریر:حسن معاویہ جٹ

کبھی بھی گھر والوں کی کال آئے تو نظر انداز نہ کریں۔ میسجز آئے ہوں تو لازماً دیکھ لیں، اگر بات کرنے کا دل نہیں بھی چاہ رہا تو بھی ضروری بات کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہ کریں۔ بعض اوقات انسان اتنا تھکا ہوتا ہے کہ جی چاہتا ہے کوئی بات نہ کرے، کوئی کال نہ آئے اور بس بے فکری سے سو جائے۔ اسی سوچ کے تحت کئی لوگ اپنا فون سائلنٹ موڈ پر لگا کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ لاکھ کوئی فون کرتا رہے مگر جب جواب نہ ملے تو کرنے والا تھک ہار کر رک جاتا ہے۔

میرا ایک بچپن کا دوست جو اب اپنی فیملی سمیت لاہور منتقل ہو چکا ہے، کبھی اپنے گھر میں ٹھہرتا تو کبھی کام کی جگہ کے قریب کرائے کے کمرے میں رکتا۔ اس کی عادت تھی کہ جب تھکاوٹ ہوتی یا موڈ خراب ہوتا تو فون سائلنٹ کر دیتا تاکہ آرام میں خلل نہ آئے۔

اُس روز بھی اس نے یہی کیا۔ مغرب کے بعد کمرے میں جا کر فون سائلنٹ کیا اور گہری نیند سو گیا۔ نیند اتنی گہری تھی کہ اگلے روز دوپہر بارہ بجے آنکھ کھلی۔ فریش ہو کر اس نے موبائل اٹھایا تو سینکڑوں مسڈ کالز دیکھ کر دل زور سے دھڑکنے لگا۔

یہ تمام مسڈ کالز اس کے بھائی، کزنز اور دیگر رشتے داروں کی تھیں۔ گھبراہٹ کے عالم میں اس نے گھر فون کیا تو روتے ہوئے بتایا گیا: "عابد، فجر کے وقت تمہارے ابو کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہم تمہارا انتظار کر کر کے میت چنیوٹ لے آئے ہیں اور یہاں چار بجے جنازہ ہے۔۔۔”

عابد پر جیسے بجلی گر گئی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کرے۔ اکیلا تھا، کوئی تسلی دینے والا موجود نہیں تھا۔ وہ دھاڑیں مار کر رویا۔ کورونا کے دن چل رہے تھے جس کی وجہ سے جانے آنے میں بھی مسائل تھے۔ عابد نے فوراً ایک دوست کو آگاہ کیا۔ دوست نے ٹیکسی بک کروا دی۔ عابد ٹیکسی میں سوار چنیوٹ پہنچا جہاں اس کی غیر موجودگی کے باعث جنازہ مؤخر کرنا پڑا۔ جیسے ہی اس کے چنیوٹ میں داخل ہونے کی اطلاع موصول ہوئی خاندان والوں نے میت اٹھانے کی تیاری کر لی۔ جب وہ بھاگتا ہوا پہنچا تو جنازہ لے جایا جا رہا تھا۔ راستے میں عابد شامل ہوا تو چارپائی روک کر اسے آخری دیدار کروایا گیا۔ وہ لمحہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ سطور لکھتے ہوئے بھی میری آنکھیں نم ہو رہی ہیں۔

اس واقعے کے بعد میں نے ہمیشہ کے لیے فون سائلنٹ پر لگانے سے توبہ کر لی۔ مسجد جاتا ہوں تو بھی فون کی آواز بند کرنے کے بجائے مدھم کر دیتا ہوں، وجہ یہ کہ اگر کوئی کال کرے کم از کم ہلکی محسوس ہو جائے تاکہ بعد میں رابطہ کرنا یاد رہ جائے۔

ایک بات اور کال کرنے والوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی بار بار کال کرنے پر بھی فون نہیں اٹھا رہا تو اس کی کوئی مجبوری ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں بار بار کال کرنے کے بجائے واٹس ایپ پر میسج چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے، کیونکہ آج کل لوگ جلدی یا ذرا دیر سے واٹس ایپ پر آئے پیغامات ضرور دیکھتے ہیں۔

ایک ضروری بات یہ بھی کہ کچھ لوگ نئے نمبر سے کال اٹھانے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں حالانکہ ممکن ہے کہ نئے نمبر سے کال کرنے والا کسی ایسی خبر سے آگاہ کرنا چاہتا ہو جو زندگی بچانے یا کسی بڑے نقصان سے محفوظ رکھنے میں مدد دے سکے۔ سو ہمیں اپنی پختہ عادات سے ہٹ کر بھی بعض کام کر لینے چاہئیں تاکہ وہ لمحہ زندگی میں نہ آئے جب کہنا پڑے: "اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔”

رہے نام اللہ کا۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانیhttp://baaghitv.com
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں