سندھ کا تعلیمی معیار تحریر: ایمن زاھد حسین

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔اور یہاں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام پر اگر نظر ڈالیں تو میں سمجھتاہوں تعلیم کو طبقاطی نظام میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ امیر حکمرانوں کے بچے ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ھین اور جو غریب حکمران ہیں انکے بچے پرائوٹ ہائے فائے اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رھے ہیں ۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں تعلیمی نصاب الگ الگ ہیں اور ہر ایک صوبے میں ایک نظام تعلیم کا ہننا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ اسے ہر لحاظ سے تباہ کیا جارہا ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک اپنی قومی زبان میں تعلیم دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں اور یہاں اسکول انتظامیہ سے لیکر والدین تک اپنے بچوں کو نہ مادری زبان پر عبور حاصل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں اور نا ہی قومی زبان پر پڑھنے بولنے لکھنے میں عبور حاصل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کا معیار 1999 سے پہلے بہترین تھا۔ جہاں بچہ یا طالب علم کی تربیت اپنے والدین،خاندان،معاشرے سے لیکر اسکول استاد تک کے سامنے ہوتی تھی اور داخلہ بھی سخت امتحان کے بعد ملتا تھا لیکن اس کے بعد تو جیسے سرکاری اسکولوں پر عزاب مسلط ہو گیا۔تعلیم تباہ ہو گئی پھر اس کے بعد پرائوٹ اسکولوں کا آغاز ھوگیا۔ انگلش میڈیم کی بھرمار آگئی اور ایک کاروباری دوڑ شروع ہو گئی لیکن مقصد تعلیم بہت پیچھے رہ گیا۔اب تو یہ حال ہے کہ سرکاری اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ کے بچے بھی انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں بلکہ نظام تعلیم سے منسلک تمام ہی افسران کے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔انگلش میڈیم اسکولوں میں بھی الگ الگ معیار ہیں۔بھاری فیس والے اور نارمل فیس والے اور سستی فیس والے۔معیار اساتذہ اور دیگر سہولیات ہیں۔سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے ذیادہ تر اساتذہ سیاسی بھرتیاں ہیں جس سے سرکاری تعلیم کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ 2011 کے بعد سندھ میں میرٹ سے بھرتی ہونے والے اساتذہ سے تعلیم 15% بہتر ہوئی 2014 -2015 میں میرٹ پر نئے اساتذہ بھرتے ہوئے جس سے سندھ میں تعلیم انقلاب پرباہ ہوا ۔پر افسوس کی بات یہ کہ سندھ حکومت کی طرف سے طرح طرح کے قوانین بننا پر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ میں مختلف قسم کی پریشانیاں لاحق ہورہی ہیں۔پہلے تو اسکولوں کی خستہ حالت سے والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بیجتے ۔دوسرا یہ کہ اسکولوں میں بنیادی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ پریشانیوں میں مبتلا ہیں ۔ جہاں بچے کم ہیں وہاں اساتذہ میسر نہیں اور جہاں اساتذہ ہیں وہاں بچے نہیں ۔ بہت سے ایسے گاؤں ہیں جو کئی سالوں سے بند پڑے ہیں۔ اس لیے میری سندھ حکومت سے عاجزانہ گذارش ہے کہ محکمہ تعلیم کا نظام بہتر بنانے کیلئے اوپر دیے گئے مسائل کو فوری حل کرکہ جئے بھٹو کی جگہ ” ہر گھر میں بچہ حاصل کریگا تعلیم کا نعرہ لگائیں کیونکہ تعلیم ہے تو قومیں ترقی کرتی ہیں،صرف نعرے سے کچھ نہیں ہوگا۔

@ummeAeman

Comments are closed.