بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی معاہدہ "سندھ طاس معاہدہ” تاحال معطل ہے، حالانکہ دونوں ممالک نے حالیہ شدید جھڑپوں کے بعد سیز فائر پر اتفاق کر لیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، بھارت کے چار اعلیٰ حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی کے باوجود سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان نے بھی اس معاہدے کی معطلی پر اعتراض کیا ہے اور عالمی سطح پر قانونی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے، کیونکہ یہ معاہدہ پاکستان کی 80 فیصد زرعی زمین کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت دریائے سندھ، جہلم، اور چناب پاکستان کو، جبکہ بیاس، راوی اور ستلج بھارت کو دیے گئے تھے۔ تاہم، بھارت نے گزشتہ ماہ اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا، جس کی وجہ بھارت کے مطابق کشمیر میں ہندو سیاحوں پر ہونے والا حملہ تھا۔ پاکستان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
پاکستان کے واٹر منسٹری کے ایک اہلکار نے واضح کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ حالیہ سیز فائر مذاکرات کا حصہ نہیں تھا۔ بھارتی حکومت کے ایک ذریعے نے بھی کہا کہ معاہدے کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔اس معاملے پر نہ تو بھارت کی وزارتِ خارجہ اور نہ ہی پاکستان کے متعلقہ وزرا کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے آیا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے ساتھ ساتھ بھارت نے پاکستان کے خلاف دیگر اقدامات بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں، جن میں تجارتی سرگرمیوں کی بندش، سرحدی سختیاں، اور ویزہ پابندیاں شامل ہیں۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں ملکوں میں جنگ بندی ہو چکی ہے، لیکن یہ تمام پابندیاں فی الحال برقرار رہیں گی۔
پشاور سمیت مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
پاکستان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ،وزیر اعظم شہباز شریف