سوشل میڈیا کا غیرضروری استعمال اور نقصانات:تحریر: عمران افضل راجہ
گزشتہ دنوں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا، ہم بہت پرجوش تھے کہ چلو
کافی عرصے بعد سب سے ملنے کا موقع مل رہاہے، خوب گپ شپ ہو گی۔ وہاں پہنچے تو
دیکھا دلہا دلہن سمیت سب لوگ سیلفیاں لینے میں مصروف ہیں۔ کسی کے پاس باتکرنے
کی فرصت نہیں۔ کچھ دیر یوں ہی سب کو دیکھ دیکھ کر بور ہوتے رہے پھر ہم نے بھی
اپنا موبائل نکالا اور فیس بک پرسکرولنگ شروع کر دی۔ گزشتہ اتوار ایک پارک جانا
ہوا تو وہاں بھی یہی منظر دیکھنے کو ملا۔ سب تفریح سے لطف اٹھانے کیبجائے اپنے
اپنے موبائل کی سکرین پر جھکے ہوئے تھے۔
ہم سب موبائل ہاتھ میں لیے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام میں مصروف ہیں۔ سوشل
میڈیا پر ہمارے سینکڑوں دوست ہیںلیکن درحقیقت ہم بالکل تنہا ہیں۔ ہمارے پاس
اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھنے، ان سے بات چیت کرنےکا وقت نہیں۔ گھر کےہر فرد کی
اپنی ایک الگ دنیا ہے جو موبائل کی سکرین تک محدود ہے۔ اس تنہائی کا اگرچہ
وقتی طور پر ہم سب کو احساس نہیں لیکنجتنا زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال میں
اضافہ ہو رہا ہے اتنا ہی معاشرے میں نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
ہر دوسراشخص احساس کمتری، مایوسی، حسد، چڑچڑےپن اور سماجی تنہائی کا شکار نظر
آتا ہے۔
پہلے پہل شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جائیں تو رشتے دار ایک دوسرے سے گھل
مل کر باتیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے دکھدرد سنتے تھے، تقریب کو بھرپور طریقے
سے انجوائے کیا جاتا تھا۔ مگر اب سب لوگ سیلفیاں لینے اور اسٹیٹس لگانے میں
مصروفہوتے ہیں۔ کسی کے پاس ایک دوسرے سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ اس طرح
غیر محسوس طریقے سے ہم اپنے پیاروںسے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
جتنا زیادہ لوگ سوشل میڈیا سے جڑ رہے ہیں اتنا زیادہ سماجی تنہائی کا شکار ہوتے
جا رہے ہیں۔ ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگفیس بک ، ٹویٹر ، Google+ ،
یوٹیوب ، لنکڈ ان ، انسٹاگرام ، پنٹیرسٹ ، ٹمبلر ، وائن ، اسنیپ چیٹ اور ریڈڈیٹ
سمیت 11 سوشلمیڈیا سائٹس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، اتنا ہی سماجی طور پر الگ
تھلگ ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیاپر زیادہ دوستوں کا مطلب ہر گز یہنہیں ہے کہ حقیقت
میں بھی آپ کے زیادہ دوست ہیں۔
زیادہ تر سوشل میڈیا پر صداقت کی شدید کمی ہے۔ لوگ اپنی دلچسپ مہم جوئی کے لیے
اس کا استعمال کرتے ہیں، قریبی رشتہ دارایک دوسرے سے کتنا پیار کرتے ہیں ، اس
قسم کی تصاویر فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت
میں یہ سب ایک دھوکہ ہے۔ اگرچہ یہ بظاہر بہت اچھا لگتا ہے لیکن اکثر یہ دیکھا
گیا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔سوشل میڈیا پر مدرز ڈے اور فادرز ڈے دھوم
دھام سے منانے والے، اور جذباتی پوسٹ لگانے والے اکثر لوگوں کے پاس عیدکے عید
بھی اپنے والدین سے ملنے کا وقت نہیں ہوتا۔ ایک ایسی ہی خاتون جن کا سٹیٹس دیکھ
کر لگتا تھا کہ ان سے زیادہ محبتکرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر کسی کا
نہیں، ایک مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی تو چہرے پر نیل کے نشانات تھے. استفسار پر
معلومہوا کہ شوہر نے نشے کی حالت میں پیٹا ہے۔
معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا پر
غیر حقیقی زندگی کی تشہیر ہے۔ نوجوان نسلاپنے جیون ساتھی کو ویسا ہی دیکھنا
چاہتی ہے جیسا کہ سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے اور جب وہ ان کی امیدوں پر پورا
نہیں اترتا توفاصلے اور اختلافات بڑھتے جاتے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو وقت
دینے کی بجائے سوشل میڈیا پر مصروف ہیں۔ ان تمامباتوں کا منطقی نتیجہ طلاق کی
صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
اسی طرح خودکشی کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ اپنی کامیابیوں، ترقی،
تقریبات، تفریح حتی کہ کھانے پینے کی تصاویربھی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔
اس طرح وہ لوگ جو یہ سب حاصل نہیں کر سکتے وہ احساس محرومی کا شکار ہو جاتے
ہیں۔اور یہ سب حاصل نہ ہونے پر ناکامی کی صورت میں یا تو خودکشی کر لیتے ہیں یا
پھر ان چیزوں کے حصول کے لیے جرائم پیشہسرگرمیاں اختیار کر لیتے ہیں۔
انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ اسے پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے ہر قدم پر
دوسرے انسانوں کا سہارا اورمدد درکار ہوتیہے۔ وہ اپنی خوشیاں اور غم دوسروں کے
ساتھ بانٹنا چاہتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا نے انسان کو سچ مچ کا حیوان بنا دیا ہے۔
اسکی ایک مثال چودہ اگست پر مینار پاکستان پر ہونے والا سانحہ ہے۔ اگر ہم اس
قسم کے واقعات کا گہرائی سے تجزیہ کریں تو ہماس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سوشل
میڈیا کے بے لگام استعمال نے ہم سے ہماری اخلاقیات، صحت اور سماجی اقدار چھین
لی ہیں۔اس نے نہ صرف ہمیں تنہا کر دیا ہے بلکہ ایک ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی
بیمار معاشرے کو بھی جنم دیا ہے۔
سوشل میڈیا نےایک نشے کی طرح لوگوں کوجکڑ لیا ہے۔ چند لمحے موبائل ہاتھ میں نہ
ہو تو طبیعت بے چین ہو جاتی ہے۔ گھنٹوںفیس بک اور انسٹا گرام پر بے معنی اور
غیر ضروری پوسٹیں دیکھتے رہنے میں وقت کے ضائع ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
ماہریننفسیات اسے ‘فیس بک ایڈکشن ڈس آرڈر’ کا نام دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف
نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں بلکہ رات بھر جاگنےاور بیٹھے رہنے سے جسمانی
بیماریوں کا بھی بآسانی شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے سے موٹاپے،
جوڑوں کے درد، دل اورشوگر کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ نیند کی کمی سے
چڑچڑاپن اور نظر کی کمزوری جیسے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین صحتنے بیٹھے
رہنے کو سگریٹ نوشی سے تشبیہ دی ہے کیونکہ اس سے بہت سے خطرناک امراض جنم لیتے
ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہر سالہزاروں افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم فرصت کے
لمحات میں بیٹھ جاتے ہیں اور غیر ارادی طور پر موبائل پر سکرولنگ شروعکر دیتے
ہیں، جو کہ نفسیاتی طور پر بے حد خطرناک ہے۔ اس سے معاشرے میں نکمے اور بے کار
لوگوں کی ایک فوج پیدا ہوتی جارہی ہے۔جن کا کام صرف سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں
کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ جو ہر وقت ایک خیالی دنیا میں رہتے ہیں لیکن عملیزندگی
میں مکمل طور پر ناکام ہوتے ہیں۔ ۔
سوشل میڈیا پر لوگ ہر وقت دوسروں سے موازنہ کرتے ہیں، جس سے جلن، حسد اور احساس
کمتری جنم لیتا ہے۔ تحقیق سے یہبات ثابت ہوئی ہے کہ سوشل میڈیا میں موازنہ کا
عنصر حسد کا باعث بنتا ہے- زیادہ تر لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی
تعطیلات، بے پناہ محبت کرنے والے ساتھی اور بہترین سلوک کرنے والے بچوں کو دیکھ
کر حسد پیدا ہوتا ہے۔ ایک تحقیق میںماہرین نے فیس بک کا استعمال کرتے ہوئے حسد
اور دیگر منفی جذبات کو دیکھتے ہوئے لکھا ہے کہ "صرف فیس بک پر ہونے والےحسد
کے واقعات کی شدت حیران کن ہے، یہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ فیس بک
ناگوار جذبات کی افزائش گاہ ہے۔” وہمزید کہتے ہیں کہ اگر لوگوں نے اس سے نکلنے
کی کوشش نہ کی تو یہ ایک ایسا شیطانی چکر بن سکتا ہے، جو کہ جلن، حسد، مقابلہ
بازی،احساس محرومی اور منفی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ
حسد محسوس کرنے سے ڈپریشن اور دیگر منفیجذبات کو فروغ ملتا ہے اور منفی خیالات
جسمانی صحت کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر لمحہ اپنے ایڈونچر کو اپ لوڈ کرنے کے
لیے کبھی پہاڑ کی چوٹی پر، کبھی دریا کے کنارے اورکھبی گلیشیر کے نیچے کھڑے ہو
کر تصویریں لینے والے لوگ اکثر اوقات اپنی قیمتی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے
ہیں۔ ہر روز اس قسمکے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کے علاوہ سوشل میڈیا اخلاقی اقدار کو بھی نقصان
پہنچانے کا سبب ہے۔ ٹک ٹاک اس کی ایک بد ترینمثال ہے۔ ٹیکنالوجی استعمال کرنے
کے جنون میں مبتلا لوگ معاشرتی اور اخلاقی روایات کو سمجھے بغیر ٹک ٹاک پر غیر
اخلاقی مواداپ لوڈکرتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ باعزت خاندانوں کے
بچے، بچیاں، بوڑھے، جوان سب اس میں مصروفہیں۔
ہمارا مذہب ہمیں میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ نمودونمائش سے روکتا ہے۔ دین نے تو
ہمیں سکھایا ہے کہ پھلوں کے چھلکے تکاپنے ہمسائے سے چھپا کر پھینکو، کہیں ان کو
احساس محرومی ہو اور ان کی دل آزاری ہو۔ اس کے باوجود ہم دوسروں کے جذباتاور
احساسات کی پرواہ کیے بغیر اپنے ہر لمحے حتی کہ کھانے پینے کی تصویریں بھی سوشل
میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ جولوگ مہنگے ہوٹلوں میں یہ کھانا
نہیں کھا سکتے ان کے دل پر کیا گزرے گی۔
ان تمام باتوں کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ہمیں دنیا سے جوڑتا ہے ، اور ایسےدوستوں کو تلاش کرنے میں ہماری
مدد کرتا ہے جن سے ہم برسوں پہلے رابطہ کھو چکے تھے۔ اس کے علاوہ معلومات
کےحصول اورکاروبار کرنے میں بھی مددگار ہے۔ لیکن اس کے استعمال سے پہلے ہمیں
کچھ حدود کا تعین کرنا ہو گا۔ بجائے اس کے کہ ہم حکومتسے کبھی ٹک ٹاک، کبھی یو
ٹیوب پر پابندی کا مطالبہ کریں، ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔ ان
تمام چیزوں کو استعمالکرتے ہوئے اعتدال اور اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھنا
چاہیے۔
اپنے ہر لمحہ کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی بجائے اس کو کسی با مقصد کام کے
لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعےمعلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، پیسے
کمانے اور کاروبار کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے
اور پابندیاںلگانے سے پہلے اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ ہم نظم و ضبط اور پابندی
وقت کے ذریعے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال بھیرکھ سکتے ہیں۔ موجودہ دور
میں ٹیکنالوجی سے دور نہیں رہا جا سکتا لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اس
میں کھو جائیں۔ ہم پراپنی جان کا بھی حق ہے اور اپنے رشتے داروں کا بھی۔ اس
نشے سے نکلنے میں سب سے اہم کردار والدین ادا کر سکتے ہیں۔ لیکنزیادہ تر والدین
خود ہی ان چیزوں سے نہیں نکل پاتے۔ ان کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت نہیں۔
انہیں شروع سے ہیبچوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ ہر کام اپنے وقت پر کرنا ہے
اور صحت، فیملی، پڑھائی اور معاشرے کا کامیاب شہری بننا سبسے زیادہ ضروری ہے۔
بچوں سے بات چیت کریں، ان کو اپنے بچپن اور اسکول لائف کے قصے سنائیں، ان کے
مسائل سنیں۔سب سے پہلے تو اپنی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ورزش کے لیے وقت
مختص کرنا چاہیے۔ دن کے کچھ گھنٹے صرف اپنی فیملیکے لیے مخصوص ہونے چاہئیں۔
سونے جاگنے کے اوقات میں بھی موبائل کو بند کر دیں۔ اگر یہ چھوٹی چھوٹی
تبدیلیاں ہم اپنیزندگی میں لے آئیں تو یقینا زندگی پر بہت خوشگوار اثرات مرتب
ہوں گے۔ لیکن اگر ہم نے ابھی اس لت سے نکلنے کی کوشش نہیںکی تو اس کے گھناؤنے
اثرات زندگیوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ جس کے نتائج سانحہ مینار پاکستان سے
بھی زیادہ شدید نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔
Imran Afzal Raja is a freelance Journalist, columnist & photographer. He
has been writing for different forums. His major areas of interest are
Tourism, Pak Afro Relations and Political Affairs. Twitter: @ImranARaja1