سوشل میڈیا اور زبان کا شر تحریر: زبیر احمد
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جو زبان پہ آئے بغیر سوچے سمجھے اور اس کے نتائج کا احاطہ کئے کہہ دیتے ہیں۔ زبان ہی ایک ایسا عضو ہے جو قابو میں رکھنے کا محتاج ہے۔ قرآن و سنت نبویﷺ مطابق زبان کا معاملہ بڑا سنگین ہے اور اس سے نکلے ہوئے کلمات قابل مواخذہ ہیں اور ہر بات نامہ اعمال میں درج ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "ہرگز نہیں، یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم اسے ضرور لکھ لیں گے اور اس کیلئے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے۔” (مریم 79)۔ اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کی زبانیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جارہی ہیں تو میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جبرائیل نے جواب دیا کہ حضورﷺ یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں جو کہا کرتے تھے ان کا اپنا وہ عمل نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کے اندر فتنہ و فساد برپا کرنے والے لوگ جن کی زبان کی تلخیاں معاشروں میں تفریق پیدا کرتی ہیں کہ بھائی بھائی سے لڑ پڑتا ہے، میاں بیوی کے درمیان تفریق پیدا کردیتے ہیں۔ ان کی زبان نفرت کی چنگاریاں اگلتی ہے اور ان کے لہجے لوگوں کے اندر تفریق، تشدد، اضطراب اور فرقہ بندیاں پیدا کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی زبان قیامت کے دن لوہے کی قینچیوں سے کاٹ دی جائے گی۔بعض اوقات آپ کوئی ایسا بڑا بول یا بات کردیتے ہیں جس سے فتنہ اور شر پھیلنا شروع ہوجاتا ہے جس سے لوگ آپس میں الجھ پڑتے ہیں۔ بعض اوقات آپ آرام سے زبان سے کوئی جملہ کہہ دیتے ہیں بعد میں اس کو واپس لینا بھی چاہیں تو اس وقت تک شر پھیل چکا ہوتا ہے اس لئے ہمارے بزرگوں نے یہ تاکید کی ہے کہ بولنے سے پہلے اچھی طرح بات کو تولو، غوروفکر کر لو کیونکہ کمان سے تیر نہ نکلا ہوتو آپ کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ جب چاہو اس کو پھینک دو لیکن جب تیر کمان سے نکل جاتا ہے پھر آپ کا اختیار ختم ہوجاتا ہے پھر وہ زخمی کرے کسی کی موت کا سبب بنے یا وہ تیر ضائع چلا جائے پھر آپ کا اختیار نہیں ہوتا۔ بولنے سے پہلے ضرور سوچیں کہ میری زبان سے نکلا ہوا کوئی جملہ میرے آس پاس کے لوگوں اور معاشرے پہ کیا اثر پیدا کرے گا۔ آج کل سوشل میڈیا پہ جو دل میں آیا وہ لکھ دیا اور لوگوں کے اندر وہ چیز وائرل کردی۔ جس طرح کی تصویر چاہا ڈال دی لیکن بعد میں وہ چیز آپ کے اختیار میں نہیں رہتی ہے۔ اب تو اتنی محدود سوچ والے اور نیچ فطرت کے لوگ بھی سوشل میڈیا پہ بیٹھے ہوئے ہیں جیسا کہ گندے مزاج کے لوگ واش روم کی اندر بیٹھ کر چھپ کے جو ان کے من میں غلاظت ہوتی وہ واش روم کی دیواروں پہ لکھ دیتے، پبلک واش رومز کے اندر یہ مناظر ہم میں سے اکثر نے دیکھے ہونگے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ایسی چھوٹی سوچ کے لوگ وہاں بیٹھ کے لکھ دیا کرتے تھے۔اب ایسے ہی لوگوں کو سوشل میڈیا کا ایک پلیٹ فارم مل گیا ہے اور یہاں وہ اپنے بند کمرے میں جو چاہیں لکھ کے سوشل میڈیا پہ ڈال دیں اور اس کے شرفساد اور غلاظت کے چھینٹے کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں ان کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔ ایک ایک حرف جو زبان سے نکلتا ہے، قلم سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ اس کا قیامت کے دن حساب ہونا ہے۔ ایک ایک چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آج اگر سوشل میڈیا پہ کوئی بات کہہ دیتے ہیں یا کسی مجمع عام یا تنہائی میں کوئی بات کرتے ہیں اور پھر اس سے شر پھیلتا ہے تو وہ شر پھر سفر کرتا رہے گا اگر وہ جملے الفاظ کہنا چھوڑ بھی دیں اکاونٹ بند بھی کردیں تو وہ شر و فساد اور اس غلاظت کے چھینٹے جو اڑے تھے وہ آگے بڑھتے رہیں گے اس کا گناہ نامہ اعمال میں درج ہوتا رہے گا حتی کہ مر بھی گئے تو پھر بھی نامہ اعمال میں سب کچھ لکھا جاتا رہے گا۔ اس لئے اپنے آپ کو محتاط کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے ایک ایک لمحے کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے وقت کو قیمتی جانیں۔ اپنی زبان کو کھولنے اور ہاتھ سے کچھ لکھنے سے پہلے ہزار بار سوچیں کہ جو میں لفظ کہہ رہا ہوں کیا وہ مجھے کہنا چاہیے یا نہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا جو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ خیر کی بات کہے ورنہ چپ رہے اس کا چپ رہنا اس کے لئے بہتر ہے اور اگر وہ کہنا چاہتا ہے تو خیر کی بات کہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی زبان کے شر سے حفاظت فرمائے، زبان کو قابو میں رکھنے اور خیر و بھلائی کی بات ہی زبان سے نکالنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین
(Twitter: @KharnalZ)