سگریٹ نوشی کی روک تھام، ایک قومی ضرورت
تحریر۔ اقصی یونس رانا
سگریٹ نوشی پاکستان میں ایک سنگین اور تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، جو نہ صرف صحت عامہ کو متاثر کر رہا ہے بلکہ معیشت، ماحول اور نوجوان نسل کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال ہزاروں افراد سگریٹ نوشی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں، جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، دل کے امراض، اور سانس کی خرابی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی نہ صرف خود پینے والے کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اُس کے اردگرد موجود افراد کو بھی "تمباکو نوشی کے دھوئیں” کے ذریعے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، جسے "passive smoking” کہا
جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کے باعث ہر سال 164,000 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں اور صحت عامہ پر تمباکو کے تباہ کن اثرات سے ملکی معیشت کو 700 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
31 مئی کو انسدادِ تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقع پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان میں تمباکو کی خرید و فروخت اور استعمال پر مؤثر کنٹرول نہ کیا گیا تو ملک 2030 تک پائیدار ترقی کے طبی اہداف حاصل نہیں کر سکے گا۔ ادارے نے تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے تمباکو پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف صحت کے شعبے کے لیے وسائل میں اضافہ ہوگا بلکہ ترقیاتی ترجیحات کو بھی تقویت ملے گی۔ ڈبلیو ایچ او نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ تمباکو سے پیدا ہونے والے صحت کے بحران سے نمٹنے میں پاکستان کی مکمل معاونت جاری رکھے گا۔
پاکستان میں سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اقدامات اکثر مؤثر طریقے سے نافذ نہیں ہو پاتے۔ حکومت نے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی، سگریٹ کے پیکٹ پر تصویری وارننگ، اور تمباکو پر ٹیکس عائد کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔ تاہم ان قوانین پر عملدرآمد کی کمی اور نگرانی کے نظام کی کمزوری کے باعث یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔
سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے سب سے اہم کردار آگاہی کا ہے۔ لوگوں کو تمباکو نوشی کے نقصانات کے بارے میں مکمل اور درست معلومات فراہم کرنا ضروری ہے، خاص طور پر نوجوانوں کو جو جلدی سے اس لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں تمباکو مخالف مہمات چلائی جانی چاہئیں تاکہ نوجوان نسل کو ابتدا ہی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ میڈیا کو بھی اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، اور تمباکو نوشی کو "فیشن” کے طور پر پیش کرنے کے بجائے ایک خطرناک عادت کے طور پر دکھانا ہوگا۔
علاوہ ازیں حکومت کو تمباکو انڈسٹری پر مزید سخت پالیسی نافذ کرنی چاہیے۔ سگریٹ بنانے والی کمپنیوں پر بھاری ٹیکس عائد کیے جائیں، ان کے اشتہارات پر مکمل پابندی ہو، اور سگریٹ کی دستیابی کو مشکل بنایا جائے، خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے لیے۔والدین، اساتذہ، اور مذہبی رہنما بھی اس جنگ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں اور خود بھی سگریٹ نوشی سے گریز کریں تاکہ ایک مثبت مثال قائم ہو۔ اساتذہ اور مذہبی شخصیات نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور انہیں اس لت کے خطرناک نتائج سے آگاہ کریں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ تمباکو کی تمام مصنوعات انسانی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہیں، اور ان کے منفی اثرات خاص طور پر بچوں اور نوعمر افراد پر زیادہ تیزی سے مرتب ہوتے ہیں۔ نوجوانی میں تمباکو نوشی کا آغاز مستقبل میں مستقل صحت کے مسائل اور لت میں مبتلا ہونے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے اس کی روک تھام نہایت ضروری ہے۔
تحقیقی شواہد سے ثابت ہوا ہے کہ تمباکو پر ٹیکس بڑھانے سے دوہرا فائدہ حاصل ہوتا ہے: ایک طرف حکومت کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، اور دوسری جانب تمباکو کا استعمال کم ہونے سے اس سے جڑی بیماریوں کا بوجھ اور صحت کے نظام پر دباؤ کم ہوتا ہے۔ یہ حکمت عملی صحت عامہ کے تحفظ کے ساتھ ساتھ مالیاتی استحکام میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔
سال 2023 میں پاکستان میں تمباکو مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ اعداد و شمار کے مطابق تمباکو نوشی میں 19.2 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ 26.3 فیصد سگریٹ پینے والوں نے تمباکو کا استعمال کم کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 2023-24 کے مالی سال میں ٹیکس آمدنی 237 ارب روپے تک پہنچ گئی، جبکہ اس سے گزشتہ مالی سال 2022-23 میں یہ آمدنی 142 ارب روپے تھی۔ یہ واضح پیش رفت ٹیکس پالیسی کی افادیت کو ظاہر کرتی ہے۔
تاہم فروری 2023 کے بعد سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں مزید کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس وقت سگریٹ پر عائد ٹیکس کی شرح ‘ڈبلیو ایچ او’ کی سفارش کردہ حد یعنی خوردہ قیمت کے 75 فیصد سے کم ہے، جو کہ عالمی معیار سے کمزور حکمت عملی تصور کی جاتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او تجویز کرتا ہے کہ تمباکو مصنوعات پر ٹیکس کو عالمی معیارات کے مطابق بڑھایا جائے تاکہ عوام کو تمباکو نوشی سے بچایا جا سکے اور صحت کے شعبے میں بہتری لائی جا سکے۔
آخر میں، سگریٹ نوشی صرف ایک شخصی عادت نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ اگر ہم آج اقدامات نہ اٹھائیں تو کل ہمیں صحت، معیشت اور سماجی ڈھانچے میں اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر ایک سگریٹ فری پاکستان کی طرف قدم بڑھائیں۔
مجموعی طور پرپاکستان کو تمباکو کے خلاف پالیسیوں کو مزید مؤثر بنانے، ٹیکس میں مسلسل اضافے اور سخت قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے تاکہ ایک صحت مند اور تمباکو سے پاک معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔