سودی نظام اور ہماری معیشت ( حصہ اول )۔۔۔ تحریر : اقصی یونس

0
32

وہ شخص کندھے جھکائے آنکھوں میں ندامت کے آنسو لئے زمیں میں نظریں گاڑھے بیٹھا تھا ۔ اور اسے لگ رہا تھا کہ شاید کبھی یہ نظریں اٹھ نہ پائیں گی ۔ کیونکہ اس نے اللہ سے جنگ کی تھی ۔ اس نے اپنی زندگی کے قیمتی سال ، اپنی صلاحیتیں ، اپنی توانائی ایک ایسے مغربی نظام پہ خرچ کی تھی ۔ جسکی اسکے مذہب میں کوئی جگہ نہ تھی مگر اسے واپسی کا کوئی راستہ بھی نظر نہ آ رہا تھا ۔ اور مسلسل اس کی زبان پہ یہی الفاظ تھے ۔ کہ میں نے سود والا رزق چن کر اللہ کی حد توڑ دی ۔ وہ رو رہا تھا وہ اعتراف جو اسکا ضمیر کئی سال سے کر رہا تھا آج پہلی بار وہ یہ اعتراف کسی انسان کے سامنے دہرا رہا تھا۔ اور اسے محسوس ہورہا تھا کہ یہ اعتراف اسے اندر ہی اندر کوڑے مار مار کر شاید نگل جائے گا ۔ یہ ضمیر کا کوڑا ہر اس شخص کو ضرور ایک دن لگتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ سود کے کاروبار سے منسک ہے۔

مغربی مالیاتی نظام یہودیوں نے قائم کیا ۔ اور مالیاتی نظام نے دنیا کی معشیت کو آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا ہے ۔ اب اگر کوئی اس جکڑ سے نکلنا بھی چاہے تو یہ کام اتنا آسان نہیں۔ کیونکہ دنیا میں مغربی مالیاتی نظام کے بانی یہودی ہیں ۔ اور وہ اس نظام کو موثر اور کامیاب بنانے میں قابل رشک حد تک کامیاب ہیں ۔ یہ وہی سود ہے جو بنی اسرائیل کے زوال اور ذلت کا سبب بنا ۔ لیکن وہی یہود آج بھی اس سے نہ صرف چپکے بیٹھے ہیں بلکہ اسے مسلمانوں کے اندر تک اس طرح پھیلا چکے ہیں ۔ کہ اب یہ سودی نظام ہمارے خون میں ویسے ہی دوڑ رہا ہے جیسے غذا ۔ اور یہ سود اب مسلمانوں کے خمیرمیں اتنا رچ بس گیا ہے ۔ کہ امت مسلمہ اس کو صحیح اور جائز قرار دینے کیلئے دلائل پیش کرتی ہے ۔ اور یہ وہ اُمّتِ محمدی تھی جن کے لیے قبلہ بدلا گیا تھا اور جنہیں بنی اسرائیل سے امامت لے کر دی گئی تھی۔

بظاہر ہم ایک آزاد ریاست ہیں ۔ مگر جن ممالک سے ہم قرضے لے رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقروض ممالک کو قرضے دے کر اپنی مرضی کی پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں جن سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوگا ۔ جن کا تما م تر منافع قرضے دینے والوں کو پہنچے گا ۔گزشتہ 73 برس میں لیا گیا کھربوں ڈالرز کا قرضہ کہاں جاتا رہا یہ بات ہمارے علم میں نہیں ۔ نواز شریف کے دور حکومت میں عوام کے لئے منجمند گیارہ ارب ڈالر کا کچھ پتا نہ چل سکا ۔ موجودہ حکومت کے احتساب کے وعوؤں کے بعد اب ہر عمل ہی مشکوک ٹھہرا ۔

موجودہ حکومت بھی اداروں سے زیادہ غیر ملکی قوتوں کے دباؤ کا شکار نظر آتی ہے ۔ اگر حالات یونہی رہے تو ممکن ہے کہ احتساب کا پورا نظام اپنے اختتام کو پہنچے ۔ یہ قرضے جو بظاہر عوام کی فلاح و بہبود کیلئے لئے گئے ۔ یہی قرضے اب عوام کے گلے کا پھندہ بن چکے ۔ اب انہی قرضوں کا سود سمیت واپسی کا مطالبہ کیا جارہا ہے بلکہ پورے کے پورے نظام کو وہ لوگ ان قرضوں کے عوض خریدنا چاہتے ہیں ۔ گیس بجلی اور آٹے کے نرخ آئی ایم ایف طے کر رہی ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق غریبوں پہ مہنگائی کا ایسا بوجھ ڈالا جا رہا ہے کہ انکے لئے زندگی جیسی نعمت کو تنگ کر دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ کرنسی کی قیمت سے لے کر ذرائع اور وسائل کی تقسیم تک اور پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھنے والی ایٹمی صلاحیت پہ بھی آئی ایم ایف اپنی نظریں گاڑھے بیٹھا ہے ۔

صرف یہی نہیں ان قرضوں کو جواز بنا کر ہماری شاہ رگ کشمیر تک کے معاملے میں ہمیں پسپائی پہ مجبور کیا جا رہا ہے ۔ اور ہر معاملے میں یہ قرضے جن سے میٹرو اور اورنجن لائن کا تحفہ تو عوام کو مل گیا مگر ہمارے ہاتھ باندھ دئیے گئے ۔ اور انہی قرضوں کو آئی ایم ایف اب ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کر رہا ہے ۔ جبکہ یہاں بھی کچھ اقتصادی دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے قرضے دینے سے انکار کیا تو ہمیں ڈیفالٹ قرار دے کر دنیا میں تنہا کر دیا جائے گا، برآمدات نہیں ہوں گی، ایل سی (Letter of credit) نہیں کھلے گا۔ یہ دانشور بھی مغرب کی پیداوار ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک یہ مفروضہ ہی غلط ہے۔ جب ہم اپنے ہمسائے ممالک پہ غور کریں جن میں چین ، اففانستان ایران اور دیگر اسلامی ممالک شامل ہیں ۔ برامدات اور تجارت کا سلسلہ ان ممالک سے جاری رکھا جا سکتا ہے جن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ اس طرح ایک تجارتی بلاک وجود میں آ سکتا ہے۔ ہمارا سب سے زیادہ خرچ تیل پر ہوتا ہے جس کے بدلے ہم تیل پیدا کرنے والے ممالک کو چاول، گندم اور کپاس برآمد کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف لاطینی امریکا کے سولہ ملک خود کو ڈیفالٹ قرار دے چکے ہیں جس کے بعد ان کی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے۔ جہاں تک تنہائی کا معاملہ ہے تو چین اور روس نے سیاسی طور پر تنہا ہو کر ہی ترقی کی۔ ہمارے اقتصادی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری معیشت سنبھل رہی ہے، میری نظر میں یہ سفید جھوٹ ہے۔ عوام معاشی بدحالی اور بیروزگاری کے ہاتھوں خودکشی کر رہے ہیں، مہنگائی ناقابل برداشت ہو چکی ہے، بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتیں بار بار بڑھائی جا رہی ہیں، یہ کیسی معاشی ترقی ہے؟اور ہمارے وزیراعظم کام سے زیادہ دکھاوے پہ زور دے رہے ہیں جس کی منہ بولتی مثال تبدیلی سرکار کے تین سال مکمل ہونے پہ کی جانے والی تقریب تھی

جاری……..

Leave a reply