طلباء کا احتجاج تحریر:- محمد عبداللہ گِل 

0
78

تعلیم و تربیت ہر معاشرے کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ھے۔تعلیم کے لیے ایک نظام بنایا گیا ھے جس کا مقصد اس شعبے کو اچھے طریقے سے چلانا اور جو کمی کوتاہی ہو اس کو۔دور کرنا ھے۔تعلیمی میدان میں جو سب سے مشکل اور محنت طلب شعبہ ھے وہ میڈیکل کا ھے۔معاشرے کے وہ طلباء جو محنتی اور ذہانت کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں وہی اس کو اپناتے ہیں اور اپنے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔میڈیکل یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے ایک ٹیسٹ کا انعقاد کیا جاتا ھے جس کو MDCat کہا جاتا ھے۔اس ٹیسٹ کا مقصد یہ ہوتا ھے کہ معاشرے کی کریم کو نکال کر اس شعبے میں لایا جائے تاکہ وہ آگے جا کر اچھی کارکردگی دکھائے۔اس امتحان کو پہلے یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کے زیر انتظام پنجاب سے لیا جاتا تھا اسی طرح سندھ میں داود یونیورسٹی یہ ٹیسٹ لیتی تھی۔اس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ ہر صوبے کا چونکہ سلیبس مختلف ھے تو ٹیسٹ بھی مختلف ہوتا تھا اور طلباء کو شکایت نہیں ہوتی تھی اور سب سے بڑی بات یہ تھی بطور ثبوت کاربن پیپر سے لی گی عکاسی دی جاتی تھی کہ یہ یہ نشانات امیدوار نے لگائے ہیں اور جو غلط ہو جاتے تھے طالب علم بھی خاموشی سے مان لیتا تھا۔لیکن اس سال یہ امتحان پاکستان میڈیکل کمیشن کے زير اہتمام لینے کا فیصلہ کیا گیا۔اور پاکستان میڈیکل کمیشن نے جو پالیسی بنائی اس میں یہ تھا کہ۔طلباء کو آوٹ لائن دے دی گئی کہ اس سے آپکا امتحان آنا ھے۔اب جو سلیبس دیا گیا ہر صوبے میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے چونکہ وہ ایک نہیں ھے اس لیے کچھ فرق ہونے کی وجہ سے طلباء کو پریشانی ہوئی۔جیسے کہ مثال کے طور پر ایک سوال دیکھ لے 

انسانی جسم میں پٹھوں کی تعداد کتنی ھے؟

پنجاب بوڑد لی کتاب میں تعداد 650 لکھی ہوئی ھے جبکہ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور سندھ کی کتاب میں تعداد 600 لکھی گئی۔

اور اتفاق سے یہ سوال امتحان میں آیا بھی اور دونوں ہی آپشن تھے اب طالب علم کیا لگائے اس کی عقل سے باہر تھا۔

طلباء کو پہلا جو مسلہ درپیش ہوا وہ یہ تھا کہ سوالات ان کی دسترس یعنی کے ان کے صوبے کے نصاب سے باہر تھے۔

دوسرا بنیادی مسئلہ جو طلباء کو درپیش آیا وہ یہ تھا کہ امتحان چونکہ آن لائن TAB پر لیا گیا تو طلباء کو امتحان کے بعد بطور ثبوت کوئی پیپر یا دستاویز نہیں دی گئی کہ یہ یہ نشانات و جوابات آپ نے لگائے ہیں۔اس سے ہوا یہ بہت سے ذہین طلباء وہ طلباء جن کے میٹرک میں 95 فیصد سے زائد نمبر ہیں وہ فیل ہو گے وجہ کیا بنی کہ سافٹ وئیر میں غلطیاں ہیں۔اس کا منہ بولتا ثبوت یہ ھے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے جس کمپنی کے زیر انتظام یہ ٹیسٹ لیا وہ TEPs ھے اور اس کی طرف سے جو پریکٹس ٹیسٹ اپلوڈ کیا گیا اس کے سوالات میں بھی غلطیاں تھی اور جوابات میں غلطیاں تھی۔اس سے طلباء کی طرف سے یہ موقف اپنایا گیا کہ 210 سوالات آپ صحیح بنا نہیں سکے تو ہر بچے کا ٹیسٹ علیحدہ ھے آپ کیسے سوالات اور جوابات درست کر سکتے ہیں؟

یہ اب تک پاکستان میڈیکل کمیشن پر سوالیہ نشان ھے جس کا وہ جواب نہیں دے سکا۔

پاکستان میڈیکل کمیشن کے اس سسٹم میں غلطی کا امکان اس لیے بھی ھے کہ طلباء کو حق ہی نہیں کہ وہ ٹیسٹ کی ری چیکنگ یا ری کاؤنٹگ کروا سکے۔جبکہ دنیا بھر میں جتنے بھی ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اگر آپ اپنے نتیجے سے مطمئن نہیں تو آپ اس کو چیلنج کر سکتے ہیں۔لیکن پاکستان میڈیکل کمیشن نے طلباء سے یہ حق بھی چھین لیا۔اسی طرح جب میں اس پر تحقیق کر رہا تھا تو میری نظر سے ایک بات گزری کہ ایک جاننے والے نے ٹیسٹ ہی ابھی نہیں دیا اور اس کا نتیجہ اپلوڈ کر دیا گیا یہ بات بھی پی ایم سی کے سسٹم میں خرابی پر دلالت کر رہی ھے۔یہ بات کوئی ایک دو طالب علم نہیں کہہ رہا بلکہ ہر طالب علم کی زبان پر عام ھے۔طالب علم امتحان دے کر نکلتا ھے وہ کہتا ھے 190 پکے ہیں لیکن جب نتیجہ آتا ھے تو فیل ہوتا ھے۔کوئی ایک دو طالب علم کہے تو چلو مان لیا جائے کہ طلباء غلط ہیں ادھر تو ہر بندہ ہی یہ ہی کہہ رہا ھے۔اس کے پاکستان میڈیکل کمیشن کے ایکٹ کے مطابق کمیشن اس بات کا پابند ھے کہ تمام طلباء کا ٹیسٹ ایک ہی دن لیا جائے لیکن ادھر یہ بھی زیادتی کی گئی کہ پورا مہینہ ٹیسٹ چلا کسی بچے کا پہلے امتحان تھا کسی کا بعد میں۔جو کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے اپنے قانون کی خلاف ورزی تھی۔ان تمام مطالبات کو لے کر جب نہتے طلباء میدان میں نکلے پہلے انھوں نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے باہر پرامن احتجاج کیا جب ان کی شنوائی نہ ہوئی تو ڈی چوک میں سات دن انھوں نے دھرنہ دیا حکومت پاکستان نے پاکستان کے مستقبل کے مطالبات کو سننے کی بجائے ان پر لاٹھی چارج اور چاقووں سے حملہ کیا جو کہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ھے اور ریاست کو یہ ذیب بھی نہیں دیتا۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ طلباء کے مطالبات سن کر تحقیقات کروائے اور ان کا ٹیسٹ دوبارہ لینے کا جو مطالبہ ھے اس کو مانے کیونکہ طلباء ہمارا مستقبل ھے اور ان کو ر

درپیش مسائل بھی حقیقت پر مبنی ھے۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے 

وہ فضل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔

Leave a reply