سچ کی تلاش ، کالم نگار سردار طیب خان

0
33

,,سچ کی تلاش کالم نگار
سردار طیب کے ساتھ ،،

ہرچند یہ کہ بھٹو زندہ نہیں ہے پر پھر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کوئی بات تو تھی بھٹو کی

’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ ۔
– وہ سرائیکی کی جداگانہ شناخت کا ا دراک رکھتے تھے۔
– جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا کر4اپریل 1979ء کوپھانسی دی۔

تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ نواز بھٹو (1888 ئ1957-ئ) سندھ کے زمیندار اور با اثر سیاست دان تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشیدبانو شاہ نواز کی دوسری بیوی تھیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھیں‘اصل نام لکھی بائی تھا لیکن شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلامی نام خورشید رکھا گیا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے اور اعلیٰ تعلیم برگلے یونیورسٹی کیلی فورنیا اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرر بھی رہے۔

1962ء میں آپ کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوااور ایوب خان سے معاہدہ تاشقند پر اختلاف کے باعث 1966ء میں استعفیٰ دے دیا۔ وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد 30 نومبر 1967ء کو آپ نے اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر لاہور میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی اورغریبوں کے لئے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا ۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بنگالیوں کے حقوق اور بنگالیوں کی قومی و ثقافتی شناخت کے نعرے پر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی، جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا، مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی بھارت نے بنگالیوں کا ساتھ دیا 16دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کا واقعہ رونما ہوا، بقیہ پاکستان کا اقتدار بھٹو کے حوالے ہوا،

بھٹو نے جنگ سے تباہ حال معیشت کو سہارا دیا، شملہ معاہدے کے ذریعے بھارت سے 90ہزار جنگی قیدی آزاد کرائے،1974ء میںسلامی سر براہی کانفرنس کرائی،1973ء میں سر زمین بے آئین کو آئین دیا، غریب کاشتکاروں اور مزدوروں کیلئے قوانین بنائے اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی جس کی پاداش میں بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا، بھٹو کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا کر4اپریل 1979ء کوپھانسی دیدی۔

سرائیکی وسیب کے حوالے سے غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سرائیکی وسیب سے جذباتی لگائو تھا، ان کو سندھی کا شاید ہی کوئی شعر یا د ہو لیکن بہت سی سرائیکی کافیاں انہیںزبانی یاد تھیں، ذوالفقار علی بھٹو ایوان وزیر اعظم میں خصوصی محافل سجا کر پٹھانے خان سے صرف سرائیکی کافیاں سنتے۔ سرائیکی سے محبت کا اس سے بڑھ کر کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو یقین ہو چکا تھا کہ ضیاء الحق کورٹ ا نہیں چھوڑے گی نہیں تب بھی آمر سے زندگی کی بھیک مانگنے کی بجائے سرائیکی زبان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے عدالت میں سرائیکی زبان کی قدامت عظمت اور مٹھاس کو زبر دست الفاظ میں خرا ج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ سرائیکی شعر سنائے’’ درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘‘ سنائے اور سرائیکی میں یہ بھی پڑھا کہ ’’کیکوں حال سناواں دل دا،کوئی محرم راز نہ ملدا‘‘۔

ہم کبھی پیپلز پارٹی کے رکن تھے نہ ہیں اور نہ ہی ہوں گے کہ ہماری پہچان سرائیکی قومی شناخت ہے ۔ اس سوال کا ادراک اقتدار پر ستوں کو نہیں ۔ پیپلز پارٹی کے نہ ہوتے ہوئے ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیںکہ ذوالفقار علی بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد بہاولپور کے جلسہ عام میں بہاولپور صوبے کے مطالبے کو مسترد کیا ۔ اس وقت بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری ہوگی لیکن آج ہم سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی قوم پر احسان کیا اور سرائیکی قومی شناخت قائم کرانے میں سرائیکی وسیب کی مدد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو واحد لیڈرتھے جنہوں نے 1974ء میں ملتان بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں یونیورسٹیاں قائم کیں۔

ذوالفقار علی بھٹو واحد لیڈر تھے جنہوں نے سرائیکی صوبہ محاذ کے رہنما ریاض ہاشمی مرحوم کو خصوصی طور پر اپنے گھر المرتضیٰ لاڑکانہ میں بلوا کر یہ کہا کہ تم لوگ بہاولپور کی بجائے اپنی سرائیکی قومی شناخت کے مطابق تین ضلعوں کی ’’ صوبڑی‘‘ کی بجائے ڈیرہ اسماعیل خان تک صوبے کا مطالبہ کرو، ورنہ مر جائو گے۔ ریاض ہاشمی مرحوم کو سمجھ آئی اور انہوں نے فوری طور پر بہاولپور صوبہ محاذ ختم کر کے سرائیکی صوبہ محاذ بنایا۔ ہزار اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیںکہ ذوالفقار بھٹو ایک قومی رہنما تھے ’’غریب کو اپنے ہونے کا احساس‘‘ دیکر بلا شبہ بھٹو نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ۔

بھٹو کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ ان کاسرائیکی وسیب سے محبت کا حوالہ بہت اعلیٰ ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نسل در نسل اسمبلیوں میں جانے والے سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں کو اپنے خطے کی تہذیب‘ ثقافت اور تاریخ کا علم نہ ہے مگر بھٹو اس سے واقف تھے وہ سرائیکی کی جداگانہ شناخت کا ا دراک رکھتے تھے۔

آج ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے کہ بھٹو کی سیاسی میراث کے وارثوں نے ان کے اس پہلو کو فراموش کر دیا۔آج پاکستان خصوصاً سرائیکی وسیب کے لوگ جس عذاب کا شکار ہیں ، اس کی ذمہ داری پی پی کی موجودہ قیادت پر عائد ہوتی ہے ۔

Leave a reply