سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ فتح بیت المقدس تحریر: رانا محمد عامر خان 

0
156

حطین میں کامیاب و کامرانی ہونے کے بعد ” القدس کی جانب راستہ بالکل واضح ہوچکا تھا اب یہ بات ممکن تھی کہ صلاح الدین

اس کا قصد کرتے اور قدرے کوشش کر کے اس کو اپنے قبضے میں لے لیتے۔ لیکن اس نے عسکری نقطہ نگاہ سے اس کو دیکھا اور یہی

بات اس کی اعلی شخصیت اور شان عبقریت کو نمایاں کر رہی ہے۔ اس نے یہ سوچا کہ القدس کو کئی شہروں کے درمیان واقع ہے

اور ساحل سمندر پر صلیبیوں کے کئی مراکز قائم ہو چکے ہیں جہاں سے وہ بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات بڑی آسانی سے قائم

کر سکتے ہیں۔ خصوصا عیسائیوں کے وہ ممالک جو ارض فلسطین میں  صلیبی ناپاک وجود کو لاکھڑا کرنے میں چشموں کی حیثیت

رکھتے تھے اسی لیے اس نے پہلے ساحلی صلیبی مراکز سے خلاصی پانے اور دوسرے  صلیبی قلعوں اور پناہ گاہوں پر قبضہ کرنے کا پختہ

 پروگرام بنایا۔ اس کے بعد وہ القدس کی طرف پیش قدمی کر کے اسے  فتح کر لے گا جب کہ اس صلیبی ناپاک وجود کی

زندگی کی شریانوں کو وہ پہلے ہی کاٹ چکا ہو گا اس کے علاوہ ” عکا اور دو سرے ساحلی صلیبی قلعوں پر قبضہ کرنا بھی مصر اور شام

کے مابین راستہ بھی بنادے گا جو اس کے ملک کے دونوں بازو شمار ہوتے تھے۔

اس نے اپنے پروگرام کی تکمیل کے لیے عسکری اعتبار سے ہر طرح کی تیاریاں کیں- مجاہدین کو اپنے ہمرہ لیا- اور اپنے ذہن میں

کھنچے ہوئے خطوط کو زمین پر کھنچنے کے لیے چل پڑا -حطین کی کامیابی کے بعد صرف چند ماہ ہی گذرنے پائے تھے کہ الله تعالی نے

اسے مندرجہ ذیل شہروں اور قلعوں  پر فاتح نصیب فرمادی۔

عکا, قیساریہ,حیفا, صفوریہ, معلیا’ شقیف ‘ الغولہ’  الطور’ سبطیہ’ نابلس’ مجدلیانہ’ یافا’ تبسین’ صیدا ‘ جبیل’ بیروت ‘حرفند’ عسقلان ‘ الرملہ’ الداروم’  غزہ ‘ یبنی’ بیت الحم ‘بیت الجبریل ‘   اور ان کے علاوہ ہر وہ چیز جو ان صلیبی بری فورسز کے

پاس تھی۔

جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ یہ سب عظیم کامیابیاں اور بڑی بڑی فتوحات معرکہ حطین کے بعد ۵۸۳ ہجری میں صرف چند مہینوں کے دوران ہی پوری ہوگئی تھیں ۔ اس طرح بیت المقدس کوفتح کرنے کے لیے فضا مکمل طور پر ساز گار تھی- کام کو

مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سلطان نے مصر سے اسلامی بحری بیڑے بھی منگوا لیے جو حسام الدین لو لو الحاجب( چمکدار ابرو والا ) کی زیر قیادت پہنچے-  جو اپنی جر أت و بسالت اور عظیم خطرناک کاموں میں بلا خوف و خطر کود جانے میں مشہور

زمانہ تھا- اور مصائب المشورہ بھی تھا۔ اس نے بحر متوسط میں چکر لگانے شروع کر دیئے مخصوصا اس بات کا خیال رکھتے ہوئے

کہ کہیں( یورپ کے ) فرنگی ساحل فلسطین تک پہچنے میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔۔

۵۸۳ ہجری /5 رجب المرجب کو بروز اتوار القدس کے قریب آن اترا- اب اس نے بیت المقدس میں محصور عیسائیوں

سے کہا کہ بغیر خونریزی اور کشت و خون کہ جسے کہ وہ اپنے مقدس مقام میں پسند نہیں کر تا اطاعت قبول کر لیں۔ لیکن جب انہوں نے اس کے جواب میں متکبرانہ انکار پیش کیا تو پھر سلطان حملہ کر کے اور نقب لگا کر اس کوفتح کرنے کی تدابیر کرنے

لگا۔ اس مقصد کے لیے پانچ دن صرف اس کام میں گذر گئے۔ وہ بذات خود شہر کی دیواروں کے ارد گرد چکر لگاتا رہا کہ اس کا

کوئی کمزور پہلو تلاش کر کے وہاں سے حملہ آور ہو سکے ۔ بالاآخر فیصلہ یہ ہوا کہ شمالی جہت سے حملہ ہی کر دے۔ چنانچہ ۲۰رجب کو

اس نے اپنے لشکر کو اس جانب منتقل کر دیا اسی رات منجنیقیں نصب کروانا شروع کردیں-صبح ہونے سے قبل منجنیقیں لگ

چکی تھیں بلکہ کام کر نے کے لیے بھی مکمل طور پر تیار تھیں- تو اب انہوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔۔۔۔۔

دوسری طرف فرنگیوں نے فصیل کے اوپر اپنی مجانیق کو نصب کر دیا دونوں طرف سے پتھراؤ شروع ہو گیا تھا – فریقین کے

مابین سخت ترین لڑائی ہو رہی تھی ۔ امام ابن الاثیر کے بقول ۔ ایک دیکھنے والے نے دیکھا کہ ہر ایک فریق اس لڑائی کو

دین سمجھ کر لڑ رہا تھا اور یہ بات بھی ایسے ہی ہے کہ دین ہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر کو متحرک کرتی ہے- موت کو اسکا

محبوب بنادیتی ہے- اپناسب کچھ اس پر لوٹا دینا اس کے لیے آسان ترین بنادیتی ہے- لوگوں کو اس بات کی ذرہ برابر بھی ضرورت نہ

تھی کہ انہیں لڑنے مرنے موت کے دریا میں کودنے پر ابھارا جائے بلکہ شاید انہیں زبردستی بھی روکا جائے تو نہ رکتے-

یکبارگی زور دار حمله

پر انہیں جہادی و قتالی ایام میں سے ایک امیر عزالدین عیسی بن مالک جو مسلمان قائدین اور تحقین میں سے ایک تھا وہ شہید

ہوگیا تو اس کے جام شہادت نوش کر تے ہی مسلمانوں کے جوش اور ولولے  میں ایک نیا رنگ پیدا ہوگیا تو انہوں نے یک بار

ایسا حملہ کیا کہ فرنگیوں کے قدم اکھڑ گئے- کچھ مسلمان خندق عبور کر کے فصیل تک پہچنے میں کامیاب ہو گئے۔ دیوار توڑنے

والے نقابوں نے شہر پناہ کو توڑنا شروع کر دیا- اس دوران دشمن کو دور رکھنے کے لیے مجانیق بلا توقف پتھراؤ کر رہی تھیں اور

تیرانداز مسلسل تیروں کی موسلا دھار بارش برسارہے تھے تا کہ یہ  دیوار توڑنے والے اپنے مقاصد کو حاصل

کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔۔۔۔۔ 

 *جان بخشی کی درخواستیں* 

تو جب ان فرنگیوں کے دفاع کرنے والوں نے مسلمانوں کے حملے کی شدت ان کے ارادوں کی صداقت اور القدس رسول

معظم مسلم کی معراج کی عارضی قیام گاہ کو چھڑوانے کی خاطر موت کو سینے لگانے کے جذبات کو دیکھا تو انہیں اپنی

ہلاکت و بربادی کا یقین ہو گیا اور سوائے جان بخشی طلب کرنے کے کوئی چارہ نہ دیکھا تو وہ مذاکرات کرنے کے لیے مائل ہو گئے

            

                          Twitter ID @pakdefsd

Leave a reply