سنت ابراہیمی ایک عظیم مقصد..تحریر :خنیس الرحمٰن

0
39

اسماعیل علیہ السلام سے جب جدالانبیاء ابراہیم خلیل اللہ نے یہ کہا کہ بیٹا میں نے خواب دیکها ہے کہ میں تجھےراہ خدا میں قربان کر رہا ہوں ,بیٹا بهی ایسا فرمانبردار تها کے باپ کی طرح ہر حکم خداوندی پر لبیک کہتا ,کہنے لگا ابا جان اللہ کا حکم ہے تو کر دیجئے. حضرت اسماعیل علیہ السلام جب قربان ہونے کے لیے اللہ کی راہ میں جاتے ہیں شیطان وسوسے ڈالتا ہے شیطان کے وسوسوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور منی کے مقام پر جد الانبیا ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر کو لٹا لیتے ہیں.اللہ سے یہ نہیں کہتے میرے رب ایک ہی دیا ہے وہ بهی واپس لے رہا ہے اللہ بوڑها ہوں میرے بڑهاپے کا سہارا ہے وہ بهی میں تیری راہ میں قربان کردوں.نہیں محترم قارئین !لبیک کہتے ہوئے بیٹے کو زبح کرنے کا پروگرام بنا لیتے ہیں.بیٹا بهی ایسا کے ابا جان کو نصیحت کرنے لگا کہ آپ نے مجهے قربان کیسے کرنا ہے اپنے ابا کو خود بتایا کے میرے گلے پر چهری کیسے چلانی ہے ادهر اپنے پیارے بیٹے کے گلے پر چهری رکهتے ہیں اور ادهر سے جنت سے اللہ مینڈهے بهیج دیتا ہے اور اپنے خلیل کو خوشخبری دیتا آج تو امتحان میں پاس ہوگیا اور یہ قربانی کا فریضہ ہم آنیوالی امتوں کو بهی حکم دیتے ہیں کہ اپنے ابا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو اجاگر کرو.
قارئین مختصر واقعہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے تفصیل آپ جانتے ہیں.
آج ہم بهی سنت ابراہیمی پر عمل کریں گے لیکن ہم جب قربانی کے وقت اللہ سے عہد کرتے ہیں کے اے اللہ میرا جینا اور مرنا اور میری قربانی سب تیرے لیے ہے اور چند ہی لمحوں بعد اس عہد کو توڑ دیتے ہیں ہم اللہ کی عبادات سے منحرف ہوجاتے ہیں .بس قربانی کرلی اور ابراہیمی بن گئے نہیں اس وقت تک ہم ابراہیمی نہیں بن سکتے جب تک دین اسلام کے عوامل پر عمل نہ کرلیں.قربانی صرف خون بہانے کا نام نہیں,صرف اللہ کے آگے عہد کرنے کا اعلان نہیں کہ آج ہماری قربانیوں کو قبول کرلے ,ایک طرف ہم جانور کی گردن پر چھری چلا رہے ہیں لیکن دوسری طرف حالت یہ ہے ہمارے خاندان والے ہم سے راضی نہیں, ہمارا بھائی ہم سے ناراض ہے, ہمارا ملازم ہم سے نالاں ہیں, اللہ قرآن میں خود اعلان فرماتا ہے :
لنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷)
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ اُن کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے یونہی ان کو تمہارے بس میں کردیا کہ تم اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ تم کو ہدایت فرمائی ۔ اور اے محبوب خوش خبری سناؤ نیکی والوں کو
آج ہم ثابت کریں کہ ہم قربانی پر چھری چلا کر اللہ کو اپنا تقویٰ پیش کریں وہ کس طرح اللہ کو راضی کرکے .اور یہ سنت ابراہیمی ہمارے معاشرے میں تربیت اولاد کے حوالے سے شاندار منظر نامہ ہے. آج ہمارے والدین بچوں کی تربیت کریں تو اسماعیل علیہ السلام کے والد کی طرح ,شاعر ایسے ہی یہ کہنے پر مجبور نہیں ہوگیا تھا,
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی
میری گزارش ہے آپ لوگوں سے قربانی آپ کی ہوتی ہے تو چهری پهیرنے کے لیے قصائی صاحب…قربانی کا مقصد کیا ہے کہ ہم قربانی کو اپنے ہاتهوں زبح نہیں کرسکتے کیونکہ ہم خون سے ڈرتے ہیں یہی وجہ ہے نا..ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو کہا کرتے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتهوں سے ذبح کرو. تو اس بار سب عہد کریں کہ اپنے جانور کو اگر بارگاہ خدا میں پیش کرنا ہے تو اپنے ہاتهوں سے کرنا ہے.

Leave a reply