انتخابات ملتوی کرنےکامعاملہ،الیکشن کمیشن ،گورنر پنجاب اورکے پی کو نوٹس جاری

0
36
supreme

اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں لارجر بینچ کے روبرو پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت ہوئی جس میں سپریم کورٹ نے انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا۔

باغی ٹی وی: پنجاب اور کے پی انتخابات کے معاملے میں چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے بنایا گیا پانچ رکنی لارجر بنچ سماعت کررہا ہےبنچ کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے ہیں، بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔

عدالت میں الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان، تحریک انصاف کے وکلاء علی ظفر اور بیرسٹر گوہر پیش ہوئے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر استفسار کیا کہ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کا شیڈول کب جاری ہوا تھا؟ آپ کے مطابق الیکشن کی تاریخ آگے کرنا درست نہیں ہے؟ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرنا کیسے غلط ہے آگاہ کریں۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر صدر نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی، گورنر کے پی نے حکم عدولی کرتے ہوئے تاریخ مقرر نہیں کی، الیکشن کمیشن نے پنجاب میں الیکشن شیڈول جاری کیا، الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ منسوخ کردی عدالتی حکم کی تین مرتبہ عدولی کی گئی، الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا، دوسری خلاف ورزی 90 دن کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کی ہے نگران حکومت کا مقصد انتخابات ہوتا ہے جو 90 روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ الیکشن 90 دن سے پانچ ماہ آگے کر دیئے جائیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ ا لیکشن کمیشن نے آئین کو یا تو تبدیل یا پھر معطل کر دیا ہے، وزارتِ داخلہ و دفاع نے سیکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا ہے، آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہوں گے؟

جسٹس امین الدین نے کہاکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات میں ایسی وجوہات سے تاخیر ہوئی ہو، انتخابات کیلئے فنڈز کس نے فراہم کرنے ہیں؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ سپریم کورٹ آنے سے پہلے ہائیکورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟ انتخابات سے متعلق کیس ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا تھا،کیا سپریم کورٹ اس کیس کو سن بھی سکتی ہے یا نہیں؟. جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا اس لیے عدالت اس کیس کو سن سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے، کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے ہوں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ معمول کی بات ہیں۔،جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس کا جو فیصلہ تھا اس پر تو تمام ججز کے دستخط نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں جج جمال خان عدالتی فیصلے پر دستخط نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی حکم کی سمری پر ججز کے دستخط ہیں،اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو بدل سکتا ہے،یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدل دیا ہے،سپریم کورٹ فیصلے بھی موجود نہیں جن میں اس طرح الیکشن کی تاریخ تبدیل کی گئی ہو،ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پی ٹی آئی کے وکیل سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟وکیل کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عملدرآمد کرائے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہائیکورٹ کا کام ہے وکیل علی ظفر نے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مانتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کی گئی لیکن کیا اس کااختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے؟ ماضی میں ایسے واقعات ہوئے جس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر ہوئی،انتخابات میں تاخیر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت ہوئی، دوسری بارجب1988میں اٹوکریٹک حکومت سے ڈیموکریٹک کو قتدار منتقل ہونا تھی اس وقت ہوئی۔

واضح رہے کہ چند روز قبل الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 30 اپریل کو شیڈول انتخابات ملتوی کرتے ہوئے 8 اکتوبر کی تاریخ دے دی تھی جبکہ گورنر خیبر پختونخوا غلام علی نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر 8 اکتوبر کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی تھی-

جس کے بعد تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن اور گورنر کے پی، کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے,آئینی درخواست میں وفاق، پنجاب، کے پی کے، وزارت پارلیمانی امور، وزارت قانون اور کابینہ کو فریق بنایا گیا ہے-

تحریک انصاف نے مشترکہ درخواستوں میں موقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30 اپریل کو الیکشن کرانے کا حکم دیا جائے۔

سپریم کورٹ نے انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے گورنرز کو بھی بذریعہ چیف سیکرٹری نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل صبح 11:30 بجے تک ملتوی کردی۔

Leave a reply