معروف شاعرہ سیدہ شاہدہ حسن کا یوم پیدائش

0
41

میں مثل موسم غم تیرے جسم و جاں میں رہی
کہ خود بکھر گئی لیکن تجھے نکھار گئی

سیدہ شاہدہ حسن نام اور تخلص شاہدہ ہے۔ 24 نومبر 1953ء کو چٹاگانگ میں پیدا ہوئیں۔ گورنمنٹ گرلز کالج کراچی سے انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے پہلے انگریزی ادب میں بی اے(آنرز) اور پھر 1975ء میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ کراچی میں تدریس سے وابستہ رہیں۔ وقتاً فوقتاً ان کا کلام ادبی رسائل میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ایک تارا ہے سرہانے میرے‘‘، ’’یہاں کچھ پھول رکھے ہیں‘‘۔ 1992ء میں فانی بدایونی عالمی ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا ۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:418

تصنیفات

۔ (1)ادا جعفری فن و شخصیت-2007
۔ (2)یہاں کچھ پھول رکھے ہیں-2002
۔ (3)ایک تارہ ہے سرہانے میرے-1995
۔ (4)شام کی بارشیں

غزل

احساس تو مجھی پہ کر رہی ہے
چھوکر جو ہوا گزر رہی ہے
جس نے مجھے شاخ پر نہ چاہا
خوشبو مری اس کے گھر رہی ہے
بے سمتیٔ اشک کی ندامت
اس بار بھی ہم سفر رہی ہے
ٹھہرا ہے وہ جب سے رہ گزر میں
مٹی مری رقص کر رہی ہے
چپکے سے گھڑی گھڑی مسافرت کی
دہلیز پہ پاؤں دھر رہی ہے
تارے بھی نظر نہ آئیں گھر میں
آنکھ ایسی گھڑی سے ڈر رہی ہے
ٹوٹا ہوا عکس لے کے لڑکی
آئینے میں پھر سنور رہی ہے

غزل
۔۔۔۔۔
سواد شام سے تا صبح بے کنار گئی
ترے لیے تو میں ہر بار ہار ہار گئی
کہاں کے خواب کہ آنکھوں سے تیرے لمس کے بعد
ہزار رات گئی اور بے شمار گئی
میں مثل موسم غم تیرے جسم و جاں میں رہی
کہ خود بکھر گئی لیکن تجھے نکھار گئی
کمال کم نگہی ہے یہ اعتبار ترا
وہی نگاہ بہت تھی جو دل کے پار گئی
عجب سا سلسلۂ نارسائی ساتھ رہا
میں ساتھ رہ کے بھی اکثر اسے پکار گئی
خبر نہیں کہ یہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں میں
وہاں تلک میں گئی ہوں کہ رہ گزار گئی

غزل
۔۔۔۔۔
چراغ شام ہی تنہا نہیں ہے
ہوا میں نے بھی گھر دیکھا نہیں ہے
وہ بادل ہے مگر اس دشت جاں پر
ابھی دل کھول کر برسا نہیں ہے
محبت اک حصار بے نشاں ہے
لہو میں دائرہ بنتا نہیں ہے
بکھرتی جا رہی ہوں اور خوش ہوں
سمٹنے میں کوئی سچا نہیں ہے
خوشا اے روئے شاخ سبز تجھ پر
سراب آئینہ کھلتا نہیں ہے
تجھے دیکھا ہے جب سے شام آلودہ
مری آنکھوں میں دن اترا نہیں ہے
میں کیوں دیکھوں ہجوم مہر و مہ کو
مری تنہائیوں میں کیا نہیں ہے
نہیں جاتے ہیں دکھ اب آ کے گھر سے
کہ یہ آنا ترا آنا نہیں ہے
بھٹک جائیں گی راتیں جس کے ہاتھوں
ابھی اس خواب کا چرچا نہیں ہے
زباں گم تھی اثر کے ذائقوں میں
ترا مجرم لب گویا نہیں ہے

تلاش و ترسیل :آغانیاز مگسی

Leave a reply