تبدیلی کا کیک اور آدھی روٹی ۔۔ ایاز خان

0
28

ایک ملک میں انہتائی کرپٹ حکمرانوں کی حکومت تھی ۔ اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت کا بازار گرم تھا ۔ غریب غریب تر اور امیر امیر ترین ہوتے جاتے تھے ۔ لوگ روکھی سوکھی روٹی پر گزارہ کرتے تھے ۔۔ عوام جتنا کماتے سب خرچ ہوجاتا۔بلکہ مقروض رہتے ۔
وہاں ایک شخص جس نے ساری عمر کھیل کود میں گزاری تھی اور اچھا خاصا کھاتا پیتا تھا۔۔لوگوں کی حالت اور حکمرانوں کی بے حسی پر کُڑھتا رہتا تھا۔۔پھر اس نے سوچا کیوں نہ خود بادشاہ بن کر لوگوں کو غربت سے نکالا جائے اور اور کرپٹ اور ظالم حکمرانوں سے جان چھڑائی جائے ۔ ۔اورپھر اُس نے لوگوں کو قائل کرنا شروع کردیاکہ وہ انہیں ظالم حکمرانوں سے نجات دلائے گا۔۔جو دولت ان حکمرانون نے لوٹی ہے وہ واپس لا ئے گا ۔۔اور لوگوں اور غذائیت کی کمی کے شکاربچوں کو روٹی کی جگہ کیک کھانے کو دے گا ۔پھر کیا تھا کہ لوگوں نے اس شخص کی بات پر یقین کرلیا۔اور کرپٹ حکمرانوں کو ہٹا کر اُسے حکمرانی دے دی گئی جب وہ شخص حکمران بنا تو کیادیکھتاہے کہ خزانہ تو خالی ہے بلکہ ملک کا دیوالیہ نکلا ہواہے۔
پھر کیا تھا کہ سابقہ کرپٹ حکمرانوں پر مقدمات بنے اور انہیں جیل میں ڈالا گیاکہ لوٹی دولت واپس دو۔۔مگر نہ دولت واپس آئی اور نہ ہی خزانہ بھرا۔۔ نئے حکمران نے اپنے وزیروں مشیروں کے ساتھ سر جوڑ لیا۔کچھ نے مشورہ دیا کہ دوست ملکوں سے قرض لیا جائے ۔او ر خزانہ بھر ا جائے تاکہ عوام کو روٹی کی جگہ کیک مل سکیں ۔۔نیا حکمران کبھی اس ملک بھاگا کبھی اُس ملک بھاگا۔۔کچھ ادھر سے لیا کچھ اُدھر سے لیا ۔۔مگر خزانہ بھر نا تو دور کی بات ۔کاروبار حکومت چلانا مشکل ہوگیا۔۔پھر کیا تھا کہ فیصلہ کیاگیاکہ اُس آدمی کو لایا جائے جو پہلے حکمرانوں کو بھاری سود پر ر قم کا بندوبست کر کہ دیتاتھا۔اگرچہ نئے حکمران نے عوام سے وعدہ کیا تھاکہ ۔وہ خود کُشی کرلے گا لیکن ایسے کام کبھی نہیں کرے گا جو پہلے والے حکمران کرتے آئے ہیں ۔۔مگر اُس نے تو عوام کو روٹی کی جگہ کیک کھلانے تھے ۔اس عظیم مقصد کے لےے اُس نے بھاری سود اور شرطوں سے بھرپور قرض بھی لے لیا۔۔لیکن حالات پھر بھی قابو میں نہیں آرہے تھے ۔۔کیونکہ خزانہ تھا کہ جتنا مرضی ڈالے جاﺅ بھر تاہی نہیں تھا ۔اور قرض تھا کہ آسمانوں کو چھونے لگا۔۔نئے حکمران نے بڑے بڑے معاشی پنڈت بلا لیے ۔۔اور اُن کے سامنے اپنا مدعا رکھا کہ عوام کو روٹی کی جگہ کیک کیسے کھلایا جائے ۔کیونکہ ان حالات میں تو ممکن نہیں ۔

فیصلہ کیا گیا کہ لگان اتنا بڑھا دیاجائے کہ خزانہ بڑھ جائے اور کیک کی فیکٹریاں لگ سکیں ۔اور پھر فیصلے پر عملدرآمد شروع ہوا۔۔ پھر کیا تھا کہ ہر کمانے والے پر جو پہلے ہی طرح طرح کے تاوان دیتاتھا۔نئے نئے لگان لگادیے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ جو چار روٹیاں کھاتا تھا ۔مہنگائی بڑھنے اور تاوان کٹنے سے دو روٹیوں پر آگیا۔۔جو دو روٹیاں کھاتا تھاایک ۔۔اور جو ایک روٹی کھاتا تھا ۔اسے مجبور کردیاگیاکہ وہ آدھی روٹی کھائے ۔۔۔رہی بات آدھی اور چوتھائی کھانے والوں کی تو انہیں بھی دو دو تین تین نوالے لگان میں دینے کا کہہ دیا گیا۔۔تاکہ ۔ اُن کے لیے کیک کا بندوبست ہوسکے ۔۔ اُن میں سے ایک مشیر ایسا بھی تھا جو سامنے تو نہیں آتا تھا لیکن فیصلے وہی کرتا تھا کہ کس وزیر کو لگانا ہے اور کسے ہٹانا ہے ۔اس مشیر کا چینی کا دھندہ تھااور چونکہ کیک بغیر چینی کے مکمل نہیں ہوسکتا تو مشیر نے کہا کہ اتنے کیک بنانے کے لیے بہت زیادہ چینی درکار ہوگی ۔اور لوگ سستے داموں چینی لے کر کھا جاتے ہیں ۔۔اس لیے اگر چینی پر بھی تاوان لگا دیا جائے تو اتنے پیسے اکٹھے ہوجائیں گے کہ مستقبل میں کیک بنانے کے لےے چینی وافر مقدار میں موجود ہوگی اور ضرورت پڑنے پر ان پیسوں سے درآمد بھی کی جاسکے گی ۔۔پھر کیا ہوا کہ چینی پر بھی لگان لگا دیاگیااور عوام کے بچوں کو جو پانی میں قطرہ بھر دودھ ڈال کر چینی ملا کر پلا یا جاتا تھا ۔۔وہ بھی ممکن نہ رہا۔۔۔حالات زرہ خراب ہوئے تو صنعتکاروں اور کاروباری حضرات جن کے منافعے زرہ کم ہوئے تو ۔انہوں نے مزدور نکالنے شروع کردےے ۔بچ جانے والوں کو کہا جانے لگا کہ دو دو تین تین لوگوں کا کام ایک کو کرنا پڑے گا اور وہ بھی آدھی تنخواہ پرجب عوام میں بے روزگاری اور بے چینی بڑھی تو ملک کا حکمران آئے روز مجمع لگاتا ۔اور لوگوں کو کہتا کہ وہ ےہ سب اس لےے کررہا ہے تاکہ عوام روٹی کی بجائے ”کیک “ کھاسکیں اور بچوں کی نشو و نما اچھی ہوسکے ۔۔انہیں ےہ کچھ عرصہ برداشت کرنا پڑے گا۔۔اور کہتا کہ میں نے خود بھی محل میں رہنا چھوڑ دیاہے ۔۔اور اپنے خرچے پر ایک چھوٹے سے گھر میں رہتاہوں ۔اس لےے صبر کریں ۔اور لگان دیں ۔
مگر ےہ جھوٹے دلاسوں سے عوام کے پیٹ کہاں بھرتے ہیں اور ۔اور پھر کیا ”کیک “ کے انتظار میں لوگ کب تک آدھی روٹی پر گزارہ کریں ؟۔۔پھر کیا تھا کہ وہی کرپٹ حکمران جنہوں نے عوام کو بس روٹی تک محدود کر رکھا تھا اور عوام میں اُنکی جگہ نیا حکمران لابٹھایا ، نئے حکمران کے خلاف اکٹھے ہو نا شروع ہوگئے ۔اور عوام کو کہنے لگے ۔۔”دیکھا ہم تمھیں روٹی تو دیتے تھے ۔۔۔اس نئے حکمران نے تو تمھاری روٹی بھی آدھی کردی “۔۔۔اور پھر وہ سارے کرپٹ ملکر نئے حکمران کو ہٹانے کی کوشش میں لگ گئے ۔۔اور ساتھ ہی حکومت کو معیشت کو ٹھیک کرنے کے لےے معاہدوں کی پیشکش بھی کرنے لگے ۔۔۔۔
کہانی ابھی جاری ہے !

Leave a reply