‏تبدیلی اور ہم .تحریر : ملک عمان سرفراز

0
23

اس دنیا میں رہنے والے انسان کس نے کسی جدوجہد میں مصروف ہے ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے ارد گرد کا ماحول بہتر سے بہترین ہو اس کو ہر سہولت ملے جس کا وہ خواہش مند ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے انسانی جسم مشینوں کی طرح کام میں مصروف ہیں۔ اس کی وجہ تبدیلی ہے وہ مثبت تبدیلی جو کہ انسن کو اس معاشرے میں ہر وہ حقوق مہیا کرے جس کا وہ خواہشمند ہے۔
مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہم اپنے مرتبے کی شان بڑھانے میں اس قدر مگن ہے کہ وہ روایات بھلا چکے جو ہمیں اپنے اباؤ اجداد سےملیں۔
بے شک اس دنیا میں محنت کرنے والا انسان کامیاب ہے محنت سے کسی چیز کے حصول کے لیے وقت درکار ہے مگر ہم تو اس قدر جلد باذ ہیں کہ ہمیں جو چیز پسند آ جائے ہم اس کا فوری طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں چاہے کسی کے حقوق کا گلا گھونٹنا پرے یا کرپشن کرنی پڑے۔
کہاں سے آئے گی یہ تبدیلی جب ہم خود دوسروں کے حقوق کھانے میں شرم محسوس نہیں کرتے کہاں سے آئے گی یہ تبدیلی جب اس ملک کی سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی ہر وہ کام سرانجام دے رہی ہے جس سے ہماری اخلاقی اقدار شرمندہ ہیں۔
اس وطن کے حالات ویسے کے ویسے ہیں کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟؟

ہم آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ سیاست دان کرپٹ ہیں کیا ہم خود کرپٹ نہیں ہیں رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کے تقدس کو بھلا بیٹھے ہیں جہاں دنیا بھر میں اس مہینے کے پیش نظر تمام اشیاء خردنوش سستی ہوتی ہیں اور یہاں حاجی صاحب دوگنا منافع کما رہے ہیں ۔
اور پھر ہم بات کرتے ہیں باہر کے ممالک کی کہ وہاں
میں سہولیات بہترین ہہں ہمارے وطن میں کیوں نہیں؟؟ تو یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے وہ غیر مسلم ہو کر بھی کرپشن ،چوری دھوکہ دہی کو جرم سمجھتے ہیں اور ہم مسلمان ہو کر بھی یہ سب کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے ۔

اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ریاست مدینہ ملے تو کہاں سے ملے گی وہ ریاست جب ہم اس ریاست کے ایک بھی اصول کو اپنانے کو تیار نہیں۔

سوچئے اور غور سے سوچئے سیاستدانوں کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ پل بھر میں سب تبدیل کر دیں گے اصل تبدیلی تو انفرادی طور پر ہر شخص نے لانی ہے اپنے رویے سے اپنے مظاہرے سے۔

تبدیلی کوئی پھل نہیں جس کو درخت سے توڑا اور کھا لیا تبدیلی کا مطلب اپنے رویوں کو مثبت راستے کی طرف گامزن کرنا ہے تاکہ کسی کی ذات کو نقصان نہ ہو اور یہ معاشرہ پر امن معاشرہ بن سکے

Leave a reply