طلاق: فیشن یا مجبوری تحریر:سید غازی علی زیدی

0
44

 معاشرے میں طلاق کی بڑھتی شرح کا ذمہ دار کون؟

 آئےروز یہ بات سننے میں آتی کہ پڑھی لکھی خواتین میں طلاق کا تناسب اسلئے زیادہ کیونکہ ان میں صبر وبرداشت کی کمی ہوتی اور وہ اپنی تعلیم اور ملازمت کی اکڑ میں شوہروں کی محتاج ہو کر رہنا پسند نہیں کرتی ہیں۔ لیکن کیا یہ واقعی حقیقت ہے؟ یا پھر ہمارے پدرشاہی معاشرہ نے ہمیشہ کی طرح مردوں کا جرم چھپانے کیلئے عورت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

 آج کل کے زیادہ تر شوہر بیوی تو خوبصورت، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ملازمت پیشہ چاہتے لیکن سلوک نوکرانی سے بھی بدتر کرتے۔ ایسی مثالی بیوی ہوجو سارا دن چپ چاپ سسرال والوں کی خدمت کرے، بچے پالے، شوہر کی مار پیٹ و گالیاں برداشت کرے اور دنیا کے سامنے اپنے شوہر کو آئیڈیل شوہر کے روپ میں بھی پیش کرے۔ اور اگر زیادہ نافرمانی کرے تو تیل چھڑک کر جھلسا دی جائے اور بعد میں چولہا پھٹنے کا بہانہ بنا کر دنیا کے سامنے خودکو بے قصور ثابت کر دیں۔ ہمارے معاشرے میں بیٹی کو یہ کہہ کر رخصت کیا جاتا کہ اب ڈولی نکلی تو جنازہ ہی واپس آئے وگرنہ نہیں۔ اگر بدقسمتی سے شوہر یا سسرال خراب نکل آئے تو پہلے تو بیٹی کو مجبور کیا جاتا کہ وہ سمجھوتہ کرے کبھی بچوں کے نام پر، کبھی والدین کی عزت کے نام پر تو کبھی سماج کےخوف سے۔ لیکن اگر کوئی چارہ نہ باقی رہے اور نوبت طلاق تک آجائے تو والدین ایسے برتاؤ کرتے جیسے مر ہی گئے ہوں۔ بیٹی جو پہلے سے ہی ذہنی دباؤ اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتی نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو مجرم سمجھنے لگتی۔ ایسے والدین کو نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک یاد رکھنا چاہیے کہ "میں تم کو یہ نہ بتادوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اس بیٹی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا کوئی اس کا نہ ہو۔” (ابن ماجہ) رہی سہی کسر عزیز رشتہ دار ہمسایے پوری کر دیتے کہ یقیناً لڑکی میں کوئی خامی ہوگی جو شوہر نے طلاق دی۔ کبھی چال چلن پر انگلی اٹھائی جاتی تو کبھی تنک مزاجی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا۔ اور آخر میں یہ کہہ کر زخموں پر نمک چھڑکا جاتا کہ ہماری بیٹیاں بھی تو ہیں اسی کو بسنے کا سلیقہ نہ تھا. شوہر کا نکما پن، متشدد مزاج، آوارگی، دوسری عورتوں سے ناجائز تعلقات غرض ہر بات کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جاتا۔ طلاق یافتہ لڑکی کی زندگی تو جو جہنم بنتی سو بنتی لیکن اگر کوئی شوہر کےمظالم سے تنگ آ کر خلع کا فیصلہ کر لے تو اس کو سیدھا سیدھا خودسری و آزاد خیالی کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا جاتا۔ خاندانی نام نہاد عزت خاک میں مل جاتی کیونکہ کورٹ کچہری کے چکر لگانے پڑتے اور اگر شوہر کمین فطرت ہو تو بدچلنی بھی ثابت کر دی جاتی۔ ان سب سے بچنے کیلئے آج بھی والدین بیٹی کو ہر قیمت پر اس کے گھر بسانا چاہتے پھر چاہے وہ اور اس کے بچے سسک سسک کر باقی ماندہ زندگی گزاریں، میکے والے خرچہ بھی اٹھائیں اور لڑکی خود بھی کولہو کا بیل بنے۔ یہ ہمارے معاشرے کی اس عورت کی ہلکی سی جھلک ہے جس کی ازدواجی زندگی مشکلات کا شکار ہوتی ہے۔ شوہر تو کیونکہ مجازی خدا ہوتا اسلیے اس سے تو غلطی ہو ہی نہیں سکتی ہاں بیوی کی معمولی غلطی پر وہ ضرور اسے دھنک کر بھی رکھ سکتا اور اسکے سر پر سوکن بھی لا سکتا۔

 لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں اس دور جدید میں بھی ایسی مظلوم عورت کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔ ہمارا معاشرہ جہاں مذہبی ٹھیکیدار ہوں یا فیمینزم کے علمبردار، پڑھے لکھے پروفیشنل ہوں یا ان پڑھ مزدور طبقہ، امیر ترین ہوں یا متوسط گھرانے، عملی طور پر عورت کیساتھ سلوک میں سب یکساں ہیں۔

 زبانی کلامی اعلی ترین مذہبی و سماجی اقدار کا حامل معاشرہ، عملی طور پر طلاق کا حقیقی تصور اور اسکی مذہبی و سماجی اہمیت سمجھنے سے تاحال قاصر ہے۔ ہم جانتے بوجھتے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے کہ طلاق ناپسندیدہ ترین لیکن جائز عمل ہے۔ جس کو مکمل رد نہیں کیا جاسکتا۔ طلاق کو شجر ممنوعہ سمجھنے والے کیا اس حقیقت سے واقف ہیں کہ نبی پاک ﷺ کی دو صاحب زادیاں جو ابو لہب کے بیٹوں کے نکاح میں تھیں انہیں رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی تھی اور بعد میں یہ دونوں صاحب زادیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ کےنکاح میں آئیں۔ اگر طلاق یافتہ ہونے کا مطلب داغ لگنا ہوتا تو کیا آنحضرت ﷺ کی بیٹیوں پر یہ داغ کبھی نعوذ باللہ لگتا؟

 کیا طلاق یافتہ عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺکی دو ازواج مطہرات مطلقہ تھیں۔ جن میں سے حضرت زینب بنت جحشؓ نےحضرت زیدؓ سے خود خلع لی تھی۔ کیا ہماری جرآت کہ ہم امہات المومنین کی کردار کشی کرسکیں یا یہ کہہ سکیں کہ وہ گھر بسانا نہیں جانتی تھیں؟ عورت کو اللّٰہ تعالیٰ نے مکمل انسان بنایا ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا

 "عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے”

 زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی امانت ہے اسے ناقدر شناس کے ہاتھوں تباہ کرکے کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ جو عورتیں بچوں کی خاطر گھٹ گھٹ کر سمجھوتہ کرتیں، شوہر کی ماریں کھاتیں انکےبچے گھریلو متشدد ماحول کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن جاتے اور بالآخر اپنی ماؤں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے۔ ذندگی، رزق اور قسمت اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ان چیزوں کا مالک شوہر یا معاشرے کو سمجھنا نہ صرف جہالت بلکہ شرک ہے۔ ایک عورت انہی باتوں پر بلیک میل ہوتی اور اپنا نقصان کر بیٹھتی۔ یاد رکھیے اللّٰہ تعالیٰ ظالم نہیں نہ طلاق کوئی حرام یا پلید فعل ہے اگر ایسا ہوتا تو کبھی بھی قرآن کی پوری ایک سورت طلاق کے نام سے نہ ہوتی جس میں تمام احکامات پوری وضاحت کیساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ عورت کی شادی کا یہ مطلب نہیں کہ اسے بلی چڑھا دیا جائے اور وہ تاعمر اذیتیں سہتی رہے۔ اسلام عورت کو طلاق، خلع، علیحدگی کی صورت میں مکمل اختیارات دیتا ہے جن میں نان نفقہ سے لیکر بچوں کی سرپرستی تک تمام احکامات واضح ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی قانون بھی اس معاملے میں شرعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا۔ لیکن اس کیلئے اصل ہمت عورت کو کرنی ہو گی کہ اس نے ذہنی و جسمانی تشدد سہہ کر جینا یا باعزت و باوقار طریقے سے زندگی گزارنی!

"جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے” (سورۃ الطلاق:03)

 لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بیشک میاں بیوی میں علیحدگی پر شیطان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا؛

 "جو عورت سخت مجبوری کے بغیر خود طلاق طلب کرے، اُس پر جنت کی خوشبو حرام ہے”(ابو داؤد) اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جو ہر دور، ہر انسان اور ہر طبقہ فکر کیلئے مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے۔ بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور یقیناً اسلام میں ہر فرد کے ہر حیثیت میں جامع ترین حقوق و فرائض متعین ہیں جن پر عمل کرکے ہی ایک بہترین عائلی زندگی اور مثالی معاشرہ کی بنیاد ڈالی جا سکتی

"Syed Ghazi Ali Zaidi ”

Leave a reply