تعلیمی نصاب . تحریر : ذیشان وحید بھٹی

0
24

یوں تو غلام اقوام معاشرے کی مختلف سطحوں پر ہونے والے استحصال کے نتیجے میں اندر ہی اندر بتدریج آزادی کے مختلف اسباق آپوں آپ پڑھتے رہتے ہیں اور جب آزادی کی جنگ چھڑتی ہے تو اس میں بنیادی اور مرکزی کردار بھی معاشرے کی وہی پرتیں ادا کرتی ہیں جو سب سے زیادہ دبی ہوئ اور کچلی ہوتی ہیں لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں قومی اور عوامی آزادی کی تحریکوں میں یہاں کے طالبہ نے جو کردار ادا کیا ہے وہ کم اہمیت کا حامل نہیں ہے کیوں کہ یہ طالبہ ہی ہے جو اپنی ذاتی،گروہی یا طبقاتی مفادات محدود ہونے کی وجہ سے اس طرح کی تحریکوں میں آگے آگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر ان کو والدین اور سماجی "مصلحین "کی طرف سے مختلف اقسام کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کے یہ پڑھنے سے زیادہ سیاست کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ کہ ماں باپ کا پیسہ ضائع کرتے ہیں اور یہ کہ ملکی حالات بھی خراب کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن لیکچر باز اکثر اس تلخ اور دراصل توئین آمیز حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ” جسے وہ پڑھائی کہتے ہیں وہ دراصل بچوں کے عقل اور شعور کو سلانے اور ان کو گرد و پیش سے بیگانہ ہو کر اداب غلامی رٹا لگانے کا نام ہے” ہمارے ہاں یعنی تیسری دنیا میں جو دراصل مغربی سرمایہ دار سامراج کی جدید نوآبادیاتی غلامی کے شکنجے میں ہے

(سامراج کا نیا روپ جس میں ملکوں کی دولت معاشی اور اقتصادی ہتھکنڈوں سے فوجی قبضے کے بغیر لوٹی جاتی ہے )یہاں تعلیم کم ہی اردگرد کے ٹھوس مطالعے کی بنیاد پر ہوتی ہے تمام مضامین گردو پیش سے بیگانہ کرنے کی حوصلہ افزائی اور اس طرح رہنمائی کرتے ہیں ۔ان مضامین کا مواد اکثر بوسیدہ اور متعلقہ مضمون کی عینک سے اس میدان میں اس معاشرے کے اپنے مسائل اور مشکلات اور ترقی کے امکانات پر غور کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے مغرب پر انحصار کے رجحان کو تقویت پہنچاتا ہے۔یہ نئی یہ ایک اور طرح کی غلامی ہے جس میں دراصل پاکستان کا ملکی ڈھانچہ بھی جھکڑا ہوا ہے کشمیریوں کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اس کے علاوہ پاکستان کے غلام حکمرانوں کی غلامی میں بھی جھکڑے ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ
"کشمیری عوام غلاموں کے غلاموں کے غلام ہیں ”

@zeeshanwaheed4

Leave a reply