طالبان کی نئی حکمت عملی؟ تحریر: نوید شیخ

0
23

اب تک طالبان کی افغانستان کی مسسلسل پیش رفت کیا ہے اور کیسے وہ چن چن کر اپنے دشمنوں کو عبرت کا نشان بنا رہے ہیں ۔ اب جیسا کہ کل خبر آئی تھی کہ بھارت طالبان کے خلاف قوتوں کو افغانستان میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے ۔ آج طالبان نے قندھار میں بھارتی قونصل خانے پر قبضہ کرکے یہ بدلہ اتار دیا ہے اور قونصل خانے پر قبضے کی ویڈیو بھی جاری کردی گئی ہے۔ ویڈیو میں طالبان کو قندھار میں بھارتی قونصل خانے کے مختلف حصوں میں جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس ویڈیو سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بھارتی سفارتکاروں اور سکیورٹی عملے نے اپنا سامان بھی پیک نہیں کیا۔ اور بھاگ گئے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت بیس سال تک افغانستان میں کئی طرح کے جنگی جرائم میں امریکہ کا مددگار رہا ہے ۔ اب افغانستان میں بھارت کی حالت عجیب سی ہو گئی ہے ۔ تین ارب ڈالر وہاں کھپانے والا بھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ طالبان کے ساتھ چین ، روس ، ترکی اور امریکہ وغیرہ سیدھی بات کر رہے ہیں اور پاکستان بھی۔ لیکن بھارت کی وزارت خارجہ کو کوئی منہ نہیں لگا رہا ہے کیونکہ سب کو انکی اصلیت معلوم ہے ۔ اس وقت بھارت کی وزارت خارجہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان ہے۔ بھارت کو فوری طور پر جس چیز نے تشویش کا شکار کیا وہ اس کے پائلٹوں کا معاملہ ہے۔ طالبان زمینی حملوں کا مقابلہ کرتے آئے ہیں لیکن فضائی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بیس برسوں کے دوران بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے پاس یہ معلومات موجود ہیں کہ طالبان ، معصوم بچوں اور عام شہریوں پر بمباری کرنے والے کئی پائلٹ بھارتی فضائیہ کے ہیں۔ طالبان نے اب تک برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے تاہم پائلٹوں کے متعلق ان کی پالیسی غیر مبہم ہے۔ اب یہ بھی خبریں ہیں کہ حالیہ دنوں سات یا آٹھ پائلٹ طالبان نے قتل کئے ہیں۔ ان میں کچھ بھارتی بھی ہیں۔ بھارت کے لئے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ اب تک بھارت اپنا بہت سا عملہ افغانستان سے نکال چکا ہے۔ ان میں زیادہ تر سفارتی کور میں کام کرنے والے انٹیلی جنس کے لوگ تھے۔

۔ یہ لوگ افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑائی اور پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اب بھارتی سفارت کار ایسے پراپیگینڈہ کر رہے ہیں کہ طالبان امن دشمن ہیں اور غیر مہذب ہیں ۔ جبکہ بھارتی میڈیا کو تو ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان دشمنی کے پیچس لگ گئے ہیں ۔ بھارتی میڈیا اس وقت رو رہا ہے ، چینخ رہا ہے ، چلا رہا ہے ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے لئے افغانستان کی صورت حال مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور سیکرٹری خارجہ ہر وہ دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں جہاں سے طالبان کا گزر ہوا ہو ۔ مگر طالبان نے اب بھی اور پہلے بھی درپردہ رابطوں کی بھارتی کوششوں سے بیزاری کا اظہار کیا ہے ۔

طالبان کے برسر اقتدار آنے سے بھارت افغانستان کی شکل میں ایک سٹریٹجک اتحادی سے محروم ہو چکا ہے۔ بھارت کی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے۔ اور بھارت کو اس چیز کی بھی بہت تکلیف ہے کہ طالبان اور پاکستان ایک دوسرے کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اس لئے پاکستان کو ایک اور دوست ہمسایہ مل گیا ہے ۔ پاکستان کا مغربی بارڈر محفوظ ہو جائے گا۔ سی پیک اور وسط ایشیا تک جانے والے تجارتی راستے کھل سکتے ہیں۔ اس لیے بھارت کے لئے یہ تصور کرنا ہی ڈرونا خواب ہے کہ وہ ہارے اور فرار ہوتے لشکر کا سپاہی ہے۔ مودی ، جے شنکر اور اجیت ڈول کے پائوں تلے انگارے سلگ رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے خطے میں پاکستان اور چین کے سوا سب سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور سب انہیں پاکستان کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ درحقیقت بھارت کو افغانستان میں خانہ جنگی سوٹ کرتی ہے کیونکہ اسے افغان سرزمین پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں مزید پروان چڑھانے کا موقع ملے گا۔ چنانچہ افغانستان کا عدم استحکام ہمارے عدم استحکام پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا یہ موقف بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف سرمایہ کاری ڈوبنے پر بھارت شدید مایوسی کا شکار ہے اور ایسے میں اُس کی بوکھلاہٹ قابل فہم ہے ۔

بھارت پہلے امریکا کی ناک کے نیچے بدامنی پھیلاتا رہا ۔ افغانستان میں امن نہیں ہونے دیا ۔ اب روس ،ایران ،چین اور سب ممالک دیکھ رہے ہیں کہ بھارت عدم استحکام کیلئے اسلحہ پہنچارہا ہے ۔ خطے کے امن کیلئے ضرور ی ہے کہ بھارتی دوغلی گیم کو روکا جائے ۔ حقیقت میں بھارت افغانستان میں خانہ جنگی کروا رہا ہے ۔ بنیادی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھے ،امریکا کو بھارت پر نظر رکھنی چاہئے ،بھارت کے جہاز اسلحہ بھر بھر کر افغانستان آرہے ہیں اور دنیا کی جدید ٹیکنالوجی کو نظر نہیں آرہے ۔یہ اسلحہ آتش بازی کیلئے نہیں لڑائی کیلئے جارہا ہے ،اقوام عالم کو اس کا نوٹس لینا چاہئے ،دنیا کو افغانستان میں خانہ جنگی نہیں ہونے دینی چاہئے ۔ کیونکہ اگر چاہے تو پاکستان بھی طالبان کو اسلحہ دے سکتا ہے۔ مگر افغانستان میں خانہ جنگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ افغانستان میں اگر امن لانا ہے تو کسی کو پراکسی نہیں بننے دینا چاہئے۔

۔ دوسری جانب طالبان نے شمالی اتحاد کا مرکز سمجھے جانے والے 100 اضلاع پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ حیران کن چیز یہ ہے کہ یہ وہ اضلاع ہیں جہاں طالبان اپنے دور حکومت میں بھی قبضہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اب شمالی صوبے بدخشاں کے تمام اضلاع پر بھی قبضہ کرلیا گیا ہے۔ اس میں وہ ضلع فرخار بھی شامل ہے جو نائن الیون سے پہلے طالبان کے مخالف کمانڈر احمد شاہ مسعود کے زیر قیادت شمالی اتحاد کا مرکز تھا۔ شمالی صوبوں میں طالبان کی کامیابی کی بڑی وجہ یہاں ان کی تنظیم سازی اور یہاں موجود تاجک اور ازبک آبادی کو اپنی صفوں میں شامل کرکے اعلیٰ عہدے دینا ہے۔ اس کے علاوہ ان صوبوں میں افغان فوجیوں کو کابل حکومت کی طرف سے امداد نہ مل سکی ۔ بہت سے فوجیوں نے طالبان کی عام معافی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہتھیار ڈالے اور طالبان سے نقدی اور کپڑے وصول کرکے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔ طالبان نے اب افغان فوج اور عوام کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان فوج ہتھیار ڈال دے تو ہم ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ ہماری حکومت سے عوام کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ امریکہ کے خلاف جہاد میں عوام کی مدد سے امریکہ کو شکست دی ہے ۔ عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ طالبان سے کوئی خوف نہ رکھیں۔ دراصل امریکی لوگ عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ جونہی امریکہ افغانستان سے جانے لگا ہے تو عوام بھی کھل کر ہمارا ساتھ دینے لگے ہیں۔

۔ اب تک کی صورتحال کے بارے میں افغان طالبان کے دوحا میں موجود ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا ہے کہ طالبان نے افغانستان کے 80 فیصد اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے اور اب صرف مرکز باقی رہ گیا ہے۔ جن اضلاع پر قبضہ کر رہے ہیں وہاں اپنا نظام بھی نافذ کر رہے ہیں۔ انھوں نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارا کسی کے ساتھ کوئی شخصی یا ذاتی مسئلہ نہیں ہے، ہم نے جن حالات کی وجہ سے جہاد شروع کیا تھا وہ حق اورباطل کا معرکہ تھا۔ حق اور باطل کے معرکے کے آخر میں فتح حق کی ہوتی ہے۔ جو اقوام ہم پر حملہ آور ہوتی ہیں وہ ہماری روایات سے متصادم ہوتی ہیں اس لیے ظاہر سی بات ہے کہ ہم انہیں شکست ہی دیں گے۔ ہم اپنی زمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم افراتفری نہیں پھیلائیں گے جس کی وجہ سے خانہ جنگی نہیں ہوگی۔ ساتھ ہی طالبان نے ایک بار پھر کابل ائرپورٹ ترکی کے حوالے کرنے کی مخالفت کر دی ہے ۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ انخلاء مقررہ تاریخ تک کوئی غیرملکی فوج قبول نہیں۔

اس بیان کے بعد افغان حکومت نے کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی کیلئے اینٹی میزائل سسٹم نصب کردیا ہے ۔ افغان سکیورٹی فورسز کے ترجمان اجمل عمر شنواری نے کہا ہے کہ سکیورٹی سسٹم ہمارے غیر ملکی دوستوں نے دیا ہے ۔ یہ کافی پیچیدہ ٹیکنالوجی ہے ۔ اس لئے فی الحال ہمارے غیر ملکی دوست ہی اسے سنبھال رہے ہیں لیکن ہم اسے سنبھالنے کی صلاحیت میں اضافہ کررہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی عالمی ذمہ داریوں سے صرف نظر کیا ہے اور انتہائی عجلت میں افغانستان سے اپنی فوج واپس بلائی ۔ اس حوالے سے چین نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ امریکہ نے اپنے اس عمل سے افغان عوام اور خطے کے دیگر ممالک پر ملبہ ڈال دیا حالانکہ اس ساری صورتحال کیلئے اصل قصور وار امریکی انتظامیہ ہے کیوں کہ اُسی پر تمام تر افغان مسئلے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں۔ وہ اپنے مفادات کو دیکھتا ہے اور مطلب نکلنے پر اجنبی بن جاتا ہے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک یقینا نئے سکیورٹی بحران سے نمٹ لیں گے لیکن دنیا امریکہ کو ہمیشہ ایک عجلت پسند ، مطلب پرست اور غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر یاد رکھے گی۔ امریکی منافقت کی انتہادیکھ لیجیے کہ بیس برس قبل افغان حکومت اس کی چہیتی جبکہ طالبان دہشت گرد اور خطے کے امن کیلئے ناسور قرار دیے جاتے تھے۔ پچھلے سال فروری کے مہینے میں قطرمیں طالبان سے معاہدہ کرکے امریکہ نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ طالبان کی افغانستان میں کیا اہمیت ہے

اس معاہدے کے نتیجے میں امریکہ نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی افغان حکومت کے جیلوں سے رہا کروائے۔ اس دوران امریکہ نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہونے والے تاریخی معاہدے کے وقت اشرف غنی حکومت کی شرکت ضروری نہیں سمجھا۔ افغانستان میں پیدا ہونے والی اس نئی صورتحال میں پاکستان کو بہرحال اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہے۔ اس وقت امریکہ بھی جارحانہ انداز ترک کرکے افغانستان میں امن کیلئے ہم سے ڈو مور کے تقاضے کر رہا ہے اور کابل انتظامیہ بھی پاکستان سے معاونت کی طلب گار ہے۔ جبکہ طالبان افغانستان میں ماضی کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں اور پوری آب وتاب کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں پر قابض ہورہے ہیں۔ افغان طالبان کا اعتماد اور لب و لہجہ اس امر کا عکاس ہے کہ وہ ابھی سے خود کو کابل کے اقتدار پر براجمان سمجھ رہے ہیں اور اسی تناظر میں وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا اظہار کر رہے ہیں۔

Leave a reply