تلخ معاشرتی رویٌے تحریر : زارا سیٌد

0
45

رویّہ انسان کی عادت کو کہتے ہیں۔ ہر انسان دوسرے سے جس طرح کا سلوک کرتا ھے اس کو ہم انسانوں کے معاشرتی رویّے کہہ سکتے ہیں۔ ایک انسان کے رویّوں ، اُس کی عادتوں اور اس کے طور طریقوں کو بنانے اور بگاڑنے میں بہت سے عوامل و اسباب ہوتے ہیں ۔انسان جس گھر میں پیدا ہوتا ہے وہ اپنے والدین سے جو بھی سچ جھوٹ کچھ سنتا ہے اور پھر جو کچھ بولتا ہے ۔ اس سننے اور بولنے کے نتیجے میں عمل اوررد عمل کی جو تشکیل ہوتی ہے۔ وہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔ انسان کے رویّوں کی تشکیل میں دوسرا اہم عمل اسکے علاقہ اور محلے کا ہے۔ اس کے دوست، احباب ہیں۔ جن گلیوں میں وہ پیدا بڑھتا ہے ، کھیلتا کودتا ہے تو وہاں پر جن کیفیات سے اُسے گزرنا پڑتا ہے، جیسے مشہور مقولہ ہے”انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔

آج کل کے دور کو دیکھا جائے اور عام لوگوں کے رویوں اور سوچ کا مشاہدہ کیا جائے تو پتا یہ چلتا ہے ہے کہ ہم مالی، معاشرتی اور سماجی سطح پر زوال پذیر ہیں۔ہمارے عام رویے ایک دوسرے سے بغض اور منافرت کا جذبہ لئے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں خلوص کی ہلکی سی جھلک نظر آ جاتی ہے اور دل کو اطمینان ہوتا ہے کہ انسان کا دل ابھی مکمل طور پر مردہ نہیں ہے مگر اجتماعی طور پر معاشرے کے ہر فرد کے رویے سے یہ بات ظاھر ھوتی ہے کہ اب انسانوں میں وہ محبت نہیں رہی جو پہلے تھی ۔

عوام میں ایک رویہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ کسی بھی حادثہ یا غیر معمولی واقعے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے اور اپنے لوگوں کی سخت تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ رویہ عام ہوتا جارہا ہے اور ہر کوئی اس میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ویڈیوز ، بلاگز، کالمز، اور ٹویٹس کا سہارا لیتا ھے ۔

یہ تنقید اگر ان عوامل کی نشاندہی کے لئے ہو جن پر توجہ دے کر ہم اجتماعی رویوں میں بہتری لا سکتے ھوں تو ایسی تنقید اصلاح کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ تنقید صرف ریٹنگ حاصل کرنے ، پوسٹ کے زیادہ لائکس یا اپنے آپ کو دنیا سے الگ دکھانے کے لیے کی جاتی ہے ۔

ان سخت اور تلخ رویوں کی وجہ سے اس قدر بے یقینی کی فضا ھے کہ ھم کسی پر اعتبار ھی نہیں کرتے ھم ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بھی کتراتے ھیں۔

 ھماری چھوٹی چھوٹی باتیں اور چھوٹی چھوٹی نیکیاں معاشرے کو خوبصورت بناتی ہیں اور وہی باتیں دوسروں کے لئے مثال بنتی ہیں۔ اگر ہم اچھی باتوں کو اپنائیں تو یہ معاشرہ خوبصورت نظر آئے گا اور اگر برائی پھیلائیں تو معاشرہ بدنما نظر آئے گا۔ ہمیں معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے بچوں کی بہترین تربیت کرنی ھو گی تاکہ وہ بڑے ھو کر معاشرے کی خوبصورتی کا باعث بنیں۔

سکولز اور کالجز میں ایسی کلاسز ھونی چاھیے جن میں معاشرے کی رہنمائی کرنے والے لوگوں کو مدعو کیا جائے جنہوں نے مشکل حالات کا مقابلہ کر کے خود کو منوایا ہو جو خود اس معاشرے کے لیے ایک مثال ہوں تاکہ بچے ان سے سیکھ سکیں اور ان کے نقش قدم پر چل کر اس معاشرے کو سنوار سکیں ۔

ٹویٹر : @Oye_Sunoo

Leave a reply