تمباکو نوشی اپنوں اور دین سے دوری کا سبب ہے!!! تحریر عقیل احمد راجپوت

0
70

تمباکو نوشی کرنے والوں کو اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا کچھ احساس ہو تو وہ پیسے بربادی اور اپنی موت کی جانب تیزی سے پیش قدمی چھوڑ کر اپنی زندگی میں خوشیاں لا سکتے ہیں تمباکو نوشی پیسوں کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے گینگرین دل کی بیماری، سانس کی بیماری اور کینسر جیسے مہلک ترین مرض تمباکو نوشی کرنے والوں میں عام انسانوں کی نسبت زیادہ ہونے کا خدشہ ہوتے ہیں مگر ہماری نوجوان نسل میں یہ بیماری بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے پوری دنیا اس وبا کے باعث لاکھوں لوگوں کو روز نگل رہی ہے اور ہنستے ہوئے چہرے چند ہی لمحوں میں بے جان لاشوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور پیچھے پچھتاوا چھوڑ جاتے ہیں نوجوان نسل اس عمل کو فیشن کے طور پر استعمال کرنا شروع کرتی ہے اور دھیرے دھیرے وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں جس کو چھوڑنے کی لاکھ کوشش کے باوجود یہ لت چھوڑنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے پاکستان میں نوجوانوں میں تمباکو نوشی کے بڑے کیس سامنے آرہے ہیں جو حکومت کے لئے سوچنے کا مقام ہے سگریٹ کے پیکٹ پر موجود وارننگ کے باوجود عام عوام میں رہنمائی نا ہونے کی وجہ سے بچوں تک کو بآسانی دستیاب ہے ایک نوجوان دن میں ایک سے دو پیکٹ سگریٹ پینے والوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر کروڑوں میں پہنچ چکی وزارت صحت اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے پاس چلی گئی صحت وفاق اور صوبوں میں ایسی بٹی کے ملک کے مریضوں کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا گیا چھوٹے چھوٹے بچوں میں تمباکو نوشی سراہیت کرتی جارہی ہے جس کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے ورنہ معاشرے میں صحت مند معاشرے کا قیام انتہائی ناگزیر ہو جائے گا مسلمان ہونے کے ناطے ویسے بھی نشہ حرام ہے مگر ہمارے معاشرے میں نشہ اور فضول خرچ پر اربوں روپے ضائع ہو جاتا ہے مگر دوسرا تاثر یہ بھی ہے کہ لوگ اسی کاروبار سے پیسے کمانا جائز سمجھتے ہیں ورنہ دیکھا جائے تو تمباکو نوشی کا کام کرنے والوں کا پیسہ جائز ہے یا نہیں اس پر بحث شروع ہوجائے گی تمباکو نوشی سے منسلک ملازمین جو تنخواہیں وصول کرتے ہیں اس پیسے سے صدقے اور حج کرتے ہیں وہ جائز ہے ان پیسوں سے دی جانے والی زکوٰۃ خیرات اللہ بہتر جانتا ہے مگر دین میں نشہ حرام ہے تو نشے کا کاروبار حلال کیسے ہوگیا میرا ذہن قبول نہیں کرتا انتباہ کا نوٹس لگا کر زہر کا کاروبار کرنے والی کمپنی اگر اپنے دل میں یہ سوچ کر مطمئن ہو کہ ہم نے تو لوگوں کا آگاہ کردیا ہے کیا انکے اپنے دل اس بات کو قبول کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ سہی عمل کے ذریعے رزق کمارہیں ہے یہ فیصلہ ان مالکان کے ظمیر کی آواز بن کر ان کے کانوں میں ضرور گونجتا ہوگا بحرحال چھوٹے سے کیبن سے لیکر بڑی بڑی فیکٹریاں اس زہر کو بیچنے کی زمہ دار تو ہیں اس بات سے کوئی لاتعلقی نہیں کرسکتا ہمارے معاشرے میں اس چیز کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہمارے مفتیانِ کرام اور علماء حضرات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ اپنے خطابات اور پیغامات کے زریعے لوگوں کو اس چیز سے بچنے کی تلقین کریں تاکہ جن لوگوں کو معلومات نہیں ہیں وہ اس عمل سے دور ہوسکیں اور انجانے میں سرزد ہونے والی ان غلطیوں سے خود کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں معاشرے میں آگاہی فراہم کرنا جن کا فرض ہے وہ بھی اس معاملے پر اجتماعات اور سیمینارز منعقد کریں تاکہ لوگوں کو گناہ سے توبہ اور بچانے اور اپنی آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کا وسیلہ مل جائے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوجائیں

Leave a reply