تنباکو سے تمباکو .تحریر:محمد عتیق گورائیہ

”آگ بنا دھر راکھ تمباکو” کہاوت کا مطلب ہے کہ جیسے بغیر آگ دھرے تمباکو بے کار ہے ویسے ہی کام بغیر تدبیر بھی بے کار ہے۔ مذکورہ کہاوت میں لفظ تمباکو ہماری آج کی تحریر کا باعث ہے،اردو میں یہ لفظ سنسکرت سے آیا ہے۔ تمباکو ایک پودا ہے جس کے پتوں کو سکھا کر سگریٹ، بڑ ی یا حقے وغیرہ میں ڈال کر استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس سے ہلکا نشہ ہوتا ہے۔ اسی سے تمباکو نوشی نکلا اور پھر تمباکو پینے والے کو تمباکو نوش کہا جانے لگا۔فارسی میں تنباکو کہتے ہیں جو اردو میں بھی مستعمل رہا ہے، آدمی اور مشین نامی کتاب میں لکھا ہے کہ ”رہا ذائقے کا معاملہ تو ہم چائے قہوہ اور تنباکوکی اچھائی کا پتہ چلانے کے لیے۔۔۔۔ درجہ وار تقسیم کرسکتے ہیں“ اگر انگریزی کے لفظtobacco کی بات کروں تو اس کے متعلق مختلف آرا موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لفظ ہسپانوی اور پرتگالی لفظ tabaco سے نکلا ہے اور ادھر بحیرہ کریبین کے جزائرمیں بولی جانے والی زبان سے آیا تھا۔ خیال ہے کہ تمباکو کے پتوں کو لپیٹنا مراد ہے یا پھر L شکل کا ایک پائپ ہے جو کہ تمباکو کے دھوئیں کو سونگھنے کے لیے مستعمل تھا۔پندرہویں صدی میں ہسپانوی، پرتگالی اور اطالوی لوگ ایک عربی لفظ کو استعمال کرتے تھے جوکہ طُبّاق تھا جسے جرمن عربی لغت نگار Hans Bodo Gerhardt Wehr نے tobacco سے جوڑا ہے، ویسے تو طباق سے مراد دھونی والا پودا ہے۔ذہن میں یہ بات بھی آرہی ہے کہ شاید tobacoکو ہی طباق نہ بنا لیا ہوکیوں کہ عرصہ درازتک یہ پودا بطوردرد کش دوائی استعمال میں رہا ہے۔ تمباکو کا اصل وطن وسطی وجنوبی امریکا ہے جہاں یہ قبل مسیح سے استعمال میں تھااسے امریکا سے باہر متعارف کروانے کا سہرا یورپی اقوام کے سر جاتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ تمباکو پر تحقیق اور اس کے وسیع پیمانے پر صنعتی شکل اختیار کرجانے کی وجہ سے امریکا کی معیشت کو شروع میں بڑا سہارا ملا تھا۔ تمباکو سب سے زیادہ کیوبا، چین اور امریکا میں پیدا ہوتا ہے۔ براعظم امریکا میں ہی ایک ملک کا نام جمہوریہ ٹرینیڈاڈو ٹوبیگو ہے، ٹوبیگو ایک جزیرہ ہے اور اس نام کی وجہ تسمیہ موٹے سگار کی سی شکل ہے۔جزیرے کو یہ نام 1511ء میں ہسپانوی حکم نامے سے ملا تھا۔ تمباکو کی 70سے زائد اقسام ہیں اور اس کے خشک پتوں کو سگریٹ اور سگار میں جب کہ ہندو پاک میں حقے کی شکل میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والوں کی اکثریت کہتی ہے کہ وہ اپنے غموں کو دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں جسے شاعر نے اس طرح سے بیان کیا ہے

؎کچھ دیر دھوئیں کی لہروں میں
دنیا سے کنارہ کرتا ہوں
اگر ہندوستانی حقے کی بات کی جاے تو یہ عربی کے لفظ حقق سے نکلا لگتا ہے جس کا مطلب ہوگا چلم اور کسی قدر پانی سے بھرا ہوا ظرف جس کے ذریعہ تمباکو پیتے ہیں۔ اسے ایران میں قلیان لکھتے ہیں جبکہ بولتے غلیان ہیں جیسا کہ آقا کو آغا بولتے ہیں۔ حقے کے لیے انگریزی زبان میں Hubble bubble کی اصطلاح مستعمل ہے جس کی وجہ گڑگڑ کی آواز ہے۔ ویسے تاریخ میں ایک شخصیت بھی گزری ہے جسے خواجہ حسن نظامی مرحوم نے شہید الحقہ کے نام سے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ اسی کتاب”تمباکو نامہ” مطبوعہ 1923ء میں حقہ بارے مزید لکھتے ہیں کہ” ہندوستانی حقہ تمام دنیا سے اعلا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہندوستانی حقہ تمام دنیا کے طریقہ جات تمباکو نوشی سے اعلا ہے۔ اور دنیا کی کوئی قوم اس معاملہ میں ہندوستانی عقل و دماغ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یورپ والے تو تمباکو کی اصلاح کرنا جانتے ہی نہیں، ان کے ہاں تو شروع سے سگریٹ سگار کا رواج ہے اور آج تک اس میں کسی قسم کی ترمیم نہیں ہوئی، حالاں کہ وہ ہر چیز میں روزانہ تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ لباس ان کا بدل جاتا ہے، خیالات ان کے بدل جاتے ہیں، ایجادوں میں ان کے ہاں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، صرف تمباکو نوشی ایک ایسی بدقسمت چیز ہے جس کے طریقہ میں انھوں نے کوئی تغیر اور فرق پیدا نہیں کیا جس سے اس کے زہریلے مادہ میں کمی ہوجاتی ہے۔ ترک، مصری اور افغانی وغیرہ اقوام نے بے شک حقہ کو اختیار کیا یعنی وہ بھی حقہ کی صورت کی ایک چیز جس کو نرگیلہ کہتے ہیں استعمال کرتے ہیں، مگر کمی یہ ہے کہ ان کو تمباکو کی اصلاح کرنی نہیں آتی وہ سوکھا تمباکو ایک چھوٹی سی چلم پر رکھ دیتے ہیں، اس چلم میں گنجایش بہت کم ہوتی ہے اور اس کے آس پاس دیواریں بھی نہیں ہوتیں، تمباکو رکھنے کے بعد بمشکل ایک دو کوئلے دو انچ قطر کے تمباکو پر رکھ دیتے ہیں اور دو تین دم کھینچ کر تمباکو جلا دیتے ہیں۔ یہ ہندوستان کی سی لطافت و نفاست وہاں نہیں ہوتی کہ تمباکو بھی گڑ، گلاب اور دیگر ادویات سے درست کیا جاتا ہے اور ا س کے زہریلے اثرات کم کردئیے جاتے ہیں۔ اور چلم بھی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ جس میں بہت سی آگ آسکے۔ اور آہستہ آہستہ پیتے ہیں تاکہ تمباکو کا زہر پانی میں جذب ہوتا چلا جاے۔ ” ادھر جو لفظ نرگیلہ بتایا گیا ہے وہ فارسی کے لفظ نرگیل سے ماخوذ ہے جس کے معنی ناریل کے ہیں جب کہ سنسکرت میں اس کو نرکیلا کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شروع میں حقہ ناریل کے چھلکوں سے بنایا جاتا تھا۔ مصحفی غلام ہمدانی کہتے ہیں
؎جو دم حقے کا دوں بولے کہ ”میں حقا نہیں پیتا”
بھروں جلدی سے گر سلفا، کہے ”سلفا نہیں پیتا”

مندرجہ بالا اقتباس سے یہ مت سمجھیے گا کہ میں حقے کے حق میں ہوں بلکہ تمباکو کا کسی بھی طرح سے استعمال بیماریوں کو لانے کا سبب سمجھتا بھی ہوں اور اپنے آپ کو بچا کر بھی رکھتا ہوں خصوصاََ سگریٹ وغیرہ کے دھوئیں سے کہ لطف اندوز کوئی اور ہو رہا ہوتا ہے اور پھیپھڑے ہمارے بیماری کا گھر بن رہے ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو کا استعمال اموات کی بڑی وجہ بنتا جارہا ہے۔باغی ٹی وی کی انتظامیہ کا اقدام لائق تحسین ہے کہ انھوں نے تمباکو نوشی کے خلاف مہم شروع کی ہوئی ہے۔ میڈیا کو اس حوالے سے کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ قوانین پر عمل پیرا ہونا۔

Leave a reply