تنقید سے فرق نہیں پڑتا،عدالت کے دروازے ناقدین کیلئے بھی کھلے ہیں،چیف جسٹس

0
42
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،فیصلہ کرنے میں کوئی عجلت نہیں کرینگے،چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ میں سماعت ہوئی

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی رضا ربانی نے بطور پارلمیٹرینز ان پرسن دلائل کا آغاز کر دیا ،رضا ربانی نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے بعد آئینی عہدیداروں نے آئین کی خلاف ورزی کی،جمہوری اداروں پر بدنیتی تنقید کے دو طرح کے نتائج برآمد ہوتے ہیں، بدنیتی پر مبنی تنقید سے یا ملک فاشزم کی طرف جاتا ہے یا سویت یونین بنتا ہے،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کیلئے کیلئے کھڑی ہے، رضا ربانی نے کہا کہ آئین کیلئے کھڑے ہونے پر ہی اداروں کے خلاف مہم چلی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کو ماننے والے جب تک ہیں تنقید سے فرق نہیں پڑتا،عدالت کے دروازے ناقدین کیلئے بھی کھلے ہیں، عدالت کا کام سب کے ساتھ انصاف کرنا ہے،تاریخ بتاتی ہے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قربانیاں دیں ہیں،قربانیاں دے کر بھی پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اداروں کا ساتھ دیا ہے، کوئی ہمارے بارے میں کچھ بھی سوچے ملکےکی. خدمت کرتے رہیں گے،قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں،

رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کے دیے گیے ڈیکلریشن کا جائزہ لے سکتا ہے،کمیشن بااختیار ہے کہ ڈیکلریشن کے شواہد شکوک و شبہات سے پاک ہوں،لازمی نہیں کہ پارٹی سے وفا نہ کرنے والا بے ایمان ہو، کاغذات نامزدگی میں دیا گیا حلف پارٹی سے وابستگی کا ہوتا ہے،اصل حلف وہ ہے جو بطور رکن قومی اسمبلی اٹھایا جاتا ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے ارکان کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہ دینے کا خوف دلاتا ہے،ارکان کو علم ہوتا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تو نتائج ہوں گے، اٹارنی جنرل مغربی جمہوریتوں کی مثالیں دیتے رہے جو غیر متعلقہ ہیں،پاکستان میں سیاسی جماعتیں دوسرے ممالک کی طرح ادارے نہیں بن سکیں،ریاست ارکان کو ایک سے دوسری جگہ بھیج کر حکومتیں گراتی رہی،

رضا ربانی نے کہا کہ مغرب میں ریلوے کے حادثہ پر وزیر فوری استعفی دے دیتا ہے، ایسے حادثات پر وزیر کا استعفی آنا چاہیے،پاکستان میں استعفی دینے کا کلچر نہیں، پاکستان میں چند دن پہلے وزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کے لیے تیار تھا، وزیر اعظم سنگین خلاف ورزی کے لیے تیار تھا لیکن استعفی نہیں دیا،پارٹی سے انحراف پر آرٹیکل باسٹھ ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا،آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت منحرف رکن ڈی سیٹ ہونا ہے نااہل نہیں،انحراف کی سزا رکنیت کا خاتمہ ہے مزید کچھ نہیں،منحرف رکن کو نااہل کرنا مقصد ہوتا تو مدت کا تعین بھی آئین میں کیا ہوتا، سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہی منحرف رکن کی شرمندگی کے لیے کافی ہے،

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیکر آپ رو پڑے تھے،اپ نے تقریر میں کہا تھا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے، اگر مستعفی ہوجائے تو کیا خیانت ہوتی؟ رضا ربانی نے کہا کہ استعفی دینے کے بعد حالات کا سامنا کر سکتا تھا، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اپ نے کسی خوف کا اظہار نئیں کیا تھا، رضا ربانی نے کہا کہ استعفی دینے کے لیے اخلاقی جرات نہیں تھی ، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ سینیٹر تھے عوام کے منتحب کردہ نمائندے نہیں،رضا ربانی نے کہا کہ میرا حلقہ پورا سندھ ہے سینیٹرز بھی خود کو منتحب کہلانا پسند کرتے ہیں، پارٹی کے خلاف ووٹ دینے سے پہلے استعفی دینا ہمارے حالات میں آپشن نہیں ہے،استعفی دینے کا مطلب سیاسی کیرئیر کا خاتمہ ہے، سینیٹر رضا ربانی کے دلائل مکمل ہو گئے

بنی گالہ کے کتوں سے کھیلنے والی "فرح”رات کے اندھیرے میں برقع پہن کر ہوئی فرار

ہمیں چائے کے ساتھ کبھی بسکٹ بھی نہ کھلائے اورفرح گجر کو جو دل چاہا

فرح خان کتنی جائیدادوں کی مالک ہیں؟ تہلکہ خیز تفصیلات سامنے آ گئیں

بنی گالہ میں کتے سے کھیلنے والی فرح کا اصل نام کیا؟ بھاگنے کی تصویر بھی وائرل

Leave a reply