ٹرانس جینڈر ایکٹ، خواجہ سراؤں کے حقوق پر ڈاکا؟ — اعجازالحق عثمانی

0
68

ہمارے معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کا تو نام و نشان تک نہیں پایا جاتا،اور جو رویہ بطور معاشرہ ہمارا خواجہ سراؤں کے ساتھ ہے وہ تو پوچھیے ہی مت۔ خواجہ سرا انتہائی قابل رحم جنس اس لیے بھی ہیں۔ کہ ہم نے انھیں ایک الگ جنس تسلیم کرنے پر آج تک تسلیم ہی نہیں کیا ۔ پیدا ہوتے ہی یہ طبقہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

ہمارے ہاں خواجہ سراؤں کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں ہیں ، شاید انہی غلط فہمیوں کو وجہ سے معاشرہ اس تیسری جنس کو قبول نہیں کرتا۔خواجہ سرا ہوتا کیا ہے ؟ اس بات کا جواب سائنسی بنیادوں پر جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔شناخت کا سب سے زیادہ موثر طریقہ ڈی این اے ہے۔

ڈی این اے میں موجود "ایکس” اور "وائے” کروموسومز جنسی شناخت کرتے ہیں۔فرٹیلائزیشن سے پہلے صرف "ایکس” کروموسوم ہی پایا جاتا ہے ۔جبکہ سپرم میں یا تو "ایکس” کروموسوم ہوتا ہے، یا پھر "وائے”۔ "ایکس” کروموسوم سے جنم لینے والی جنس لڑکی جبکہ "وائے” کروموسومز کی فرٹیلائزیشن ہو تو پیدا ہونے والی جنس لڑکا ہوگا۔

لیکن بعض دفعہ کسی لڑکے میں لڑکیوں کی خصوصیات جبکہ لڑکیوں میں لڑکوں کی خصوصیات آجاتی ہیں ۔ظاہری جسمامت لڑکیوں والی ،اور بعض افراد میں خصوصیات لڑکوں والی آجاتی ہیں ۔ ایسی جنس کو خواجہ سرا کہتے ہیں ۔

2018ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پیش ہوتا ہے۔ جس کے تحت ٹرانس جینڈر کو ڈرائیونگ لائسنس کے ساتھ ساتھ جنسی ہراسانی سے تحفظ کی فراہمی اور ان سے بھیک منگوانے پر پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا متعین ہوتی ہے۔یہاں تک تو بات ٹرانس جینڈر طبقے کے حق میں تھی اور ان سارے حقوق کا یہ طبقہ حقدار بھی ہے۔ مگر اس ایکٹ کی چند ایک کلاز ایسی ہیں، جن کے بعد میں تو کم از کم اس کو ایکٹ کو خواجہ سراؤں کے حقوق پر ڈاکا کہوں گا۔

کیونکہ معاشرے سے اٹھ کر کوئی بھی مرد یا عورت کہے کہ وہ خواجہ سرا ہے تو بغیر کسی طبعی روپوٹس اور تحقیق کے مان لیا جائے تو یہ دراصل خواجہ سرا طبقے کے حق پر ڈاکا ہے۔اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص خود اپنی جنس کا تعین کر سکتا ہے ۔اور بغیر کسی میڈیکل رپورٹ کے، یعنی کوئی بھی شخص نادرا کو درخواست دے کر اپنی جنس مرد سے تبدیل کروا کے عورت یا عورت سے مرد کروا سکتا ہے۔ خواجہ سراؤں کو حق ہے کہ وہ خود اپنی جنس کا تعین کریں ۔

کیونکہ بعض خواجہ سرا بچوں کے جنسی اعضا بچپن سے نہیں پہچانے جاسکتے ۔ بلوغت سے پہلے جنسی غدود فعال نہیں ہوتے اور جنسی ہارمونز کی مقدار بھی کم ہوتی ہے ۔اس لیے جسمانی ساخت سے پہچان خاصا پیچیدہ عمل ہوتا ہے ۔ ایسے میں وہ بچے اپنی جنس کا تعین خود ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں ۔

مگر۔۔۔۔۔۔ایسے کھلا کھلم آزادی کہ جس کا جی چاہے اپنی جنس کا تعین خود کرنے بیٹھ جائے ، کسی طور پر بھی بڑی تباہی اور بربادی سے کم نہیں،معاشرے کی ان کالی بھیڑوں کو لگا کیسے اور کون ڈالے گا جو اس ایکٹ کی آڑ میں، اسے ہم جنس پرستوں کے تحفظ کا قانون بنا لیں گے۔

Leave a reply