تنزانیہ کی پراسرار جھیل جو جانوروں کو پتھر کا بنا دیتی ہے

0
28

اس وقت پوری دنیا میں 3 ملین سے زائد جھیلیں پائی جاتی ہیں جو کہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے قابل ِدید ہیں۔ دنیا بھرمیں بے پناہ خوبصورتی والی جھیلیں لاتعداد ہیں، مگر کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں، جن کو اپنی پراسرار اور حیرت انگیز خصوصیات کے باعث مشہور ہیں ان میں ہی تنزانیہ کی مشہور پراسرار جھیل بھی شامل ہے جو ایک عرصے سے معمہ بنی رہی ہے اس جھیل میں جانے والے اکثر جانورفوعی طور پر مر جاتے ہیں اور اس طرح رک جاتے ہیں کہ گویا مجمند ہوگئے ہیں یا پھر ممی میں تبدیل ہوجاتا ہے

اس جھیل کا نام ناترون جھیل ہےخون کی طرح سرخ رنگ کی یہ جھیل دور سے دیکھنے میں ایسی نظر آتی ہے جیسے گوشت کے بڑے بڑے پارچے اس وادی میں پھیلادیئے گئے ہوں،ایک عرصے تک جھیل کو آسیبی اور پراسرار سمجھا گیا تھا یہ جھیل تنزانیہ کے شمال میں کینیا کی سرحد کے انتہائی قریب واقع ہے اور نیروبی سے تقریباً 140 کلومیٹر دور ہے، کینیا کے ایواسو نیرو نامی دریا کے پانی کی وجہ سے وجود میں آئی یہ جھیل معدنی دولت سے مالامال ہے۔

یہ ایک نمکین پانی کی جھیل ہے جو کہ سوڈیم کاربونیٹ اور سوڈیم بائی کاربونیٹ پر مشتمل ہے- جھیل کا درجہ حرارت عام طور پر تقریباً 80 ڈگری فارن ہائیٹ رہتا ہے لیکن یہی درجہ بعض مخصوص حالات میں 140 ڈگری فارن ہائیٹ یعنی 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے یہاں کے کنارے بھی نمک کے ڈلوں پر مشتمل ہیں نمک کی زیادتی اور کسی مچھلی کی عدم موجودگی سے اسے جان لیوا جھیل بھی کہا جاتا ہے۔

جھیل میں کثیر مقدار میں پائے جانے والے نائیٹرون کی موجودگی کا سبب قریب میں موجود آتش فشاں پہاڑ ہے،جو اب بھی سرگرم ہے، جس کی راکھ نائٹیرون میں اضافے کا سبب بنتی ہے اس سے نیٹرو کاربونائی ٹائٹس جھیل میں آتے ہیں اور الکلائن کیفیت 10 بی اپچ تک بڑھ چکی ہے یہاں بیکٹیریا ہی پائے جاتے ہیں جن کی بہتات سے جھیل سرخ ہوچکی ہے یہ اسے مزید پراسرار بناتا ہے یہ آتش فشاں اب تک 8 مرتبہ پھٹ چکا ہےاس آتش فشاں نے پہلی بار 1883 میں لاوا اگلنا شروع کیا تھا-

یہاں فلیمنگو پرندے ملاپ کرتے ہیں۔ لیکن یہ پرندے بھی کنارے پر ہی رہتے ہیں کیونکہ نمکین جھیل گہرائی میں انہیں ہمیشہ کے لیے ساکت بنا سکتی ہے۔ جیسے ہی کوئی جانور یا پرندہ اس جھیل میں گرجائے وہ فوری طور پر مر جاتا ہے اور بہت تیزی سے اس کا جسم نمک زدہ ہوکر ایسا لگتا ہے کہ گویا پتھر کا ہوچکا ہے۔

فلیمنگو پرندے نیٹروکاربونائی ٹائٹس کھاتے رہتے ہیں لیکن وہ کنارے تک ہی رہتے ہیں اور دور تک نہیں جاتے۔ تاہم جھیل کنارے پر بڑی تعداد میں مری ہوئی چمکادڑیں اور پرندے دیکھے جاسکتے ہیں-

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پراسرار جھیل کے اندر جہاں ایک طرف تو کوئی بھی جانور اور پرندہ زندہ نہیں رہ سکتا وہیں مچھلیوں کی ایک خاص قسم اس جھیل کے انتہائی زہریلے اور خطرناک ہونے کے باوجود بھی اس میں زندہ رہتی ہے۔ مچھلیوں کی اس قسم کو الکائن تِلاپیہ کہا جاتا ہے اور یہ زندہ رہنے کے لیے جھیل کے کنارے ایسے مقام کا انتخاب کرتی ہیں جہاں پانی کم نمکین ہوتا ہے-

اس جھیل میں 19000 سال کی تاریخ بھی پنہاں ہے جھیل کنارے انسان کے 400 قدم دیکھے گئے ہیں جو ایک وقت میں جم کر پتھراگئے اور ہزاروں سال قدیم بتائے جاتے ہیں۔

Leave a reply