ترمیمی قانون کی منظوری مشاورت کے بعد ہوئی، عطا تارڑ

Attaullah Tarar

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے واضح کیا ہے کہ حالیہ ترمیمی قانون کی منظوری اچانک نہیں ہوئی، بلکہ اس پر طویل مشاورت جاری تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون سازی کسی ایک شخص کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ ملک کے اداروں کی بہتری کے لیے کی گئی ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے، عطا تارڑ نے اس بات کی وضاحت کی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی اس قانون سازی کے بارے میں اعتماد میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کی تعیناتی کے بارے میں موجود بے یقینی کو ختم کیا گیا ہے، جبکہ اس بات پر زور دیا کہ نئے قانون کے تحت پانچ سال کی مدت مقرر کرنے سے ادارے کے میرٹ بیسڈ سسٹم پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔وزیر اطلاعات نے اپوزیشن کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے انہیں بات کرنے کا موقع دینے کی کوشش کی، اور خاص طور پر بیرسٹر گوہر کو اپنی بات رکھنے کا مکمل موقع فراہم کیا گیا، مگر ان کے اپنے ممبرز نے شور مچا کر انہیں تقریر نہیں کرنے دی۔
عطا تارڑ نے سوال اٹھایا کہ کیا عمر ایوب نے کبھی اپنے دادا کے دور کو غلط قرار دیا؟ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن قانون سازی پر بحث کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، جو کہ جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ عدالتوں میں ججز کی تعداد میں کمی و بیشی ممکن ہے اور یہ تعداد حتمی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "34 ججز کی تعداد تک پہنچنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسی تعداد کو مستقل رکھا جائے گا۔” انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ججز کی تعداد بڑھائی گئی ہے، اور یہ مطالبہ بار کونسلز کی جانب سے کیا گیا تھا۔عطا تارڑ نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی پہلی کوشش تھی کہ آئینی عدالت قائم کی جائے، لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدلیہ سے متعلق قانون سازی کسی ایک شخصیت کو سامنے رکھ کر نہیں کی گئی، بلکہ یہ ملک کے قانونی نظام کی بہتری کے لیے ضروری تھی۔
وزیر اطلاعات نے پی ٹی آئی کے خلاف الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس جماعت نے حد کر دی تھی، جبکہ حکومت نے کسی کے خلاف ہیروئن کا کیس نہیں ڈالا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اٹک پولیس اور انتظار پنجوتھا کے معاملے میں کوئی سازش نہیں ہے، بلکہ پولیس کا اغوا کاروں سے مقابلہ ہوا، جس کے نتیجے میں انتظار پنجوتھا بازیاب ہوئے۔ عطا تارڑ کے یہ بیانات اس وقت آئے ہیں جب ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کی قانون سازی کے اقدامات پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

Comments are closed.