تسخیر کائنات
تسخیر کائنات
مصنفہ :قرۃالعین خالد
مبصر :اکبر علی شاہد
ادبی افق پر قرۃالعین خالد کا نام پوری آب و تاب سے چمکنے لگا ہے۔ آپ کا قلم صحیح معنوں میں جہاد کر رہا ہے۔ آپ کا قلم کسی طور بھی مجاہد کی تلوار سے کم نہیں۔
ان کی پہلی تصنیف” اضطراب سے اطمینان تک “پر پہلے تبصرہ کر چکا ہوں، اس کتاب میں قرآن کی ان آیات کا ذکر ہے جن میں مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ مصنفہ نے بہترین انداز میں ان آیات کا ترجمہ و تفسیر بیان کی ہے ان آیات کا موجودہ دور سے تعلق بھی سمجھایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کتاب کا ہر مومن کی لائبریری میں ہونا ضروری ہے ۔
ان کی دوسری کتاب” تسخیر کائنات“ کالمز کا مجموعہ ہے ۔ مطالعہ کے دوران میں نے محسوس کیا یہ ان کے جذبات و احساسات کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے جس خوبصورت انداز میں اپنے والدین کو خراج تحسین پیش کیا ہے وہ آنکھیں نم کر گیا ۔
کتاب کا انتساب بھی انھوں نے اپنے والد محترم کے نام کیا ہے۔ لکھتی ہیں :
بہت ہی پیارے انتہائی شفیق!
سب سے محبت کرنے والے!
انسان کے نام!
خالد محمود
میرے پیارے ابو جی! سلامت رہیں آمین
اللہ پاک ہر بیٹی کی پہلی محبت اس کے والد کا سایہ اس کے سر پر سلامت رکھے آمین ثم آمین
کتاب میں جناب قاسم علی شاہ، محمد ایوب صابر، نعمت اللہ ارشد گھمن، ہما مختار احمد اور ثنا آغا خان جیسے بہترین مصنفین کی رائے شامل ہے ۔ ان سب نے کتاب کو بہت سراہا ہے جو کہ کتاب کا حق ہے۔ یہ بلاشبہ ایک خوبصورت اور کردار ساز کتاب ہے۔ ہمارے معاشرے کے ہر پہلو پر تعمیری انداز میں بحث کی گئی ہے۔ رشتوں کی اہمیت و خوبصورتی پر خوب قلم چلایا گیا یے۔ مصنفہ نے کتاب میں نثر کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری کے بھی کچھ نمونے شامل کیے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے ان کا شاعری کا ذوق بھی بہت خوب ہے۔ کتاب کے شروع میں رب کی ذات پاک پر چھوٹی سی نظم لکھی یے۔
وہ والدین کے متعلق لکھتی ہیں :
ان کے پیروں کے نیچے ہے جنت میری
ان کی دعاؤں سے روشن ہیں بخت میرے
رشتوں سے محبت کے ساتھ ساتھ انھوں نے بچوں کی تربیت پر خاصا زور دیا ہے، کتاب کی اہمیت جتائی ہے۔ سانحہ سیالکوٹ پڑھتے ہوئے یہ انکشاف ہوا کہ مصنفہ کتنا حساس دل رکھتی ہیں، ہر معاملے کو ہر رخ سے دیکھنے کی نگاہ رکھتی ہیں۔ ہر معاملے ہر واقعہ کو بیان کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے حوالے ان کی دین سے محبت کی نشانی ہیں۔ کرونا کے تناظر پر لکھا ان کا کالم بھی پڑھنے لائق ہے۔
ان کی تحریر” فریب “ پڑھ کر ایسا لگا جیسے دل کو کسی نے مٹھی میں بھینچ دیا گیا ہو۔
” آج صائمہ کو دیا گیا فریب خود اس کی جھولی میں آ گرا، فریب اپنے مالک کو تلاش کر ہی لیتا ہے ۔ “
اف! کتنے سچے ہیں یہ الفاظ، آئینہ دکھاتے الفاظ ۔۔۔۔
مصنفہ کی تحریر بعنوان سٹریس (زہنی دباؤ) ہم سب کو ضرور پڑھنی چاہیے، بہت مفید تحریر ہے، جگہ کی تنگی کا احساس نہ ہوتا تو میں یہ تحریر اس تبصرے میں مکمل طور پر شامل کر دیتا۔
کیسا حسین اتفاق ہے کہ میں یہ تبصرہ بھی سال کے آخری ماہ دسمبر میں لکھ رہا ہوں ۔ نئے سال پر ان کی نثری نظم دل کو بہت بھلی لگی۔
ابھی سال کے آخر میں
مجھے کچھ وعدے کرنے ہیں
کچھ نئے سپنے بننے ہیں
بھلا کر ماضی کی غلطیوں کو
نئی راہوں پر چلنا ہے
مایوسیوں کے در چھوڑ کر
مجھے بس آگے بڑھنا ہے
مجھے منزل کو پانا ہے
مجھے راستہ بنانا ہے