ٹیکنالوجی باعث رحمت ہے یازحمت:تحریر .ارم شہزادی

0
44

جدید ٹیکنالوجی سے پہلے رہن سہن کتنا سادہ تھا، کتنا خوبصورت تھا، لوگ کیسے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ کیسے کھانا، پینا، اوڑھنا، سادہ تھا کوئی بناوٹ نہیں تھی۔کوئی جلن حسد جیسی خرافات عام نہیں تھیں۔رشتوں کا کیسے احترام تھا۔ صبح کا آغاز موبائل فون اور ٹی وی کے بجائے نماز، تلاوت قرآن سے ہوتا تھا۔ناشتہ بریڈ جام، جیسے غیر معیاری اور غیر صحت بخش غذا سے نہیں بلکہ روٹی، دیسی انڈے، مکھن، لسی، دودھ سے ہوتا تھا۔ سارا دن موبائل پر نظر جمانے کے بجائے جسمانی کھیل کود ہوتا تھا۔زمینوں پر کام کرنا پینڈو ہونا باعث شرمندگی نہیں بلکہ باعث فخر ہوتا تھا۔ بھینسیں پالنا قابل فخر تھا کتا پالنا نہیں۔ دودھ، دہی، مکھن گھر کی خوراک تھی۔سبزیاں اپنی زمینوں پر اگائی یجاتی تھیں۔سادہ بیج بغیر کھاد کے بغیر سپرے کے صاف پانی سے بڑھنے والی سبزیاں زائقے میں تو اچھی ہوتی ہی تھیں ساتھ صحت مند بھی ہوتی تھیں۔ ایک گھر اگر سبزی اگاتا تھا تو سارا گاؤں یا تو بغیر پیسوں کے یا بہت تھوڑے سے پیسوں کے عوض خرید لیتا تھا۔ ایک گھر میں اگر کوئی حادثہ ہوجاتا تھا تو سارا گاؤں اکٹھا ہوجاتا تھا۔ جیسے دیوار اینٹ سے جڑی اینٹ کی طرح ہوتی ہے بلکل ویسے جڑے ہوئے تھے۔

جیسے حدیث مبارکہ ہے کا مفہوم ہے کہ” مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جسم میں کسی ایک حصہ کی تکلیف سارا بدن محسوس کرتا ہے” گاؤں گنجان آباد تھے۔ شہروں کی آبادی بہت کم تھی دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی بہت ہی کم تھی۔ ٹی وی کی نشریات سے پہلے ریڈیو پر پروگرام پورا پورا گاؤں مل کرسنتا تھا کیونکہ ہرگھر میں ریڈیو موجود نہیں تھا۔ پھر وقت میں تھوڑی تبدیلی ہوئی اور ریڈیو کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی کی آمد نے جہاں شہروں کی زندگی میں تبدیلی رونما کی وہاں دیہات میں بھی یہ چیز عام ہونے لگی۔ لوگوں کا ویژن بدلا تو جو علاج دیسی جڑی بوٹیوں-سے ہوتا تھا وہ شہروں سے جا کر کروانا شروع کیا۔ دیہاتوں میں ڈسپنسری تو نا تھی لیکن بیماریوں سے لڑنے کی قوت مدافعت ضرور تھی۔ سکول کالج بھی دیہاتوں میں نا تھے لیکن مدارس تھے قران کی تعلیم ہر بچے کے پاس تھی۔ وقت کی تبدیلی نے دیہاتوں میں رہنے والوں کو سوچنے پر مجبور کیا اور وہ بچے پڑھانے کے لیے شہروں کا رخ کرنے لگے کسی حد تک تو یہ درست تھی اور تعلیم ہر بچے کا حق تھا لیکن بدقسمتی سے اس ایک حق نے باقی بہت سے حقوق چھین لیے۔ اگر کوشش، کر کے تمام سہولیات دیہاتوں میں لی جاتیں تو آج دیہات ویران اور شہر گنجان آباد نا ہوتے۔ آبادی کا تناسب قائم رہتا، لمبی چوڑی گھریلو بلڈنگز نا بنتیں تو شہروں کے صفائی کے معاملات اتنے خراب نا ہوتے جتنے ہیں۔ ریڈیو ٹی وی کو ترقی جاننے والی قوم جب لیب ٹاپ اور سمارٹ فونز تک پہنچی تو بلکل ہی بدل چکی تھی یہ نسل ترقی کا یہ سفر انکی پہنچ میں سائنس تو لے آیا لیکن خالق سے دور کردیا۔رزق کے پیچھے دوڑتے دوڑتے صحت تو گنوا بیٹھے لیکن زمینیں بنجر کررہے ہیں۔ رشتے داریاں اب وٹس ایپ سٹیٹس تک رہ گیئں ہیں رشتے نام کے رہ گئے۔باپ کی بہن پھپھو گھر کی رانی سے ڈاکو رانی بنا دی گئی۔ اماں مم بن گئی ابا جی ڈیڈ بن گیا۔ فیشن کے نام پے کپڑے پہلے چھوٹے ہوئے اب پھٹنے لگ گئے۔ سردیوں کی شامیں جو سارا خاندان ایکساتھ مناتا تھا اب الگ الگ کمروں میں بظاہر تنہا گزار دیتا ہے۔ بہت ساری چیزوں کو خود پر حاوی کرکے مہنگائی کا ازھاد اپنے گلے ڈالا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو سمارٹ فونز لے کر دیے ہیں اور انہیں انکی اصل سے الگ کردیا ہے۔

ترقی یہ نہیں ہوتی کہ آپ اپنا اصل بھول جائیں غیر کا کلچر اپنائیں بلکہ ترقی یہ ہوتی ہے کہ اپنے اصل کو پروموٹ کریں انہیں اگے بڑھائیں۔ دنیا کے اگے لگ جانے کے بجائے اپنی چیزوں کو اگے لائیں۔اپنے دیہات، کھلیان سجائیں، آپنی زمینوں پر نئے نئے تجربات کریں فصلیں اگائیں کسی دفتر میں چند ہزار کی ملازمت سے بہتر اپنے باغات اگائیں ملازم بننے کے بجائے ملازم رکھیں۔ صحت مند سبزیاں اگائیں۔ صحت بخش فروٹس اگائیں۔ دیہاتوں میں صحت کی سہولیات پہنچائیں، سکول کالج بنائیں، اچھےاچھے رروڈز اور سڑکیں بنائیں۔ دیہات آباد کریں۔زمینوں پر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئی نئی فصلیں اگائیں۔ موجودہ فصلوں کی مقدار بڑھانے کے لیے استعمال کریں۔ تاکہ آبادی کی آباد کاری اور ضروریات کو متناسب کیا جاسکے۔ شہروں پر بڑھتے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔ رشتوں میں خود غرضی جو گھل چکی ہے اسے کم کیا جاسکے۔ دلوں کو شہری گھروں اور سڑکوں کی طرح تنگ بنانے کی بجائے دیہاتوں اور کھلیانوں کی طرح کھلا اور کشادہ کریں۔ ٹیکنالوجی کو رحمت بنائیں زحمت نہیں۔۔
جزاک اللہ
@irumrae

Leave a reply