تیسری جنس: کچھ مزید وضاحت — ارشد خان صافی

0
19

ٹرانسجنڈرز بل پر اپنی گزشتہ گزارشات کے تسلسل میں اور اس سلسلے سیاسی نیم ملاؤں فتویٰ بازی اور سیکولر دیسی لبرلوں کے نیم حکیمانہ نظریات کے تناظر میں مزید کچھ وضاحت پیش خدمات ہے- ٹرانسجنڈرز کے معاملے کو حسب روایت ہمارے وہ نیم حکیم اور نیم خواندہ قسم کے "سیکولر ترقی پسند” پیچیدہ بنا رہے ہیں جو الحاد اور کافرانہ لادینیت کو یا تو اپنی جہالت کی وجہ سے سیکولر ترقی پسندی کہتے اور سمجھتے ہیں یا پھر اپنے نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ایک ایجنڈے کہ تحت مذہب بیزاری کو انسانیت دوستی کا لبادہ پہناتے ہیں باوجودیکہ اب تو ساینسدانوں میں بھی اس بات پر اجماع ہے کہ مذھب اور سانس ایک دوسرے کی زد نہیں بلکہ دو مختلف میدان ہیں- سائنس کے میدان کے صائب اہل فکر معاشرتی اقدار اور سماجی علوم کے معاملات میں سائنس کو بنیاد بنا کر فطرت کے خلاف جنگ کو کبھی ترقی پسندانہ سوچ نہیں کہتے ہیں – جو لوگ قران پر ایمان رکھتے ہیں انکےلئے تو یہ مسلہ بہت سادہ ہے کہ الله سبحانہ تعالہ فرماتے ہیں:

وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ- (الذاريات – 49)
اور جو چیزیں ہم نے پیدا کیں ان کے ہم نے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت پکڑو!

وَمِنْ اٰيٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ۗ (الروم آية ۲۱)
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی نفس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی

سیدھی سی بات ہے کہ سیکولر انسانی تاریخ اور تمام آسمانی کتابیں انسان میں صرف دو جنسوں یعنی مرد اور عورت کے وجود کی تصدیق کرتی ہے- انسانی اور مذہبی تاریخ میں تمام احکامات، اخلاقی ضابطے اور قوانین بھی دو جنسوں اور اصناف یعنی مرد اور عورت یا نراور مادہ کے تقسیم پر مبنی ہے- لہٰذا تیسری جنس اور صنف فطری قوانین کے مطابق بھی خلاف معمول معذوری یا بیماری کا مظہر ہے- اب یہ معذوری طبعی یا حیاتیاتی یعنی بیالوجیکل بھی ہوسکتی ہے جس میں کسی انسان کے ایکس اور وائی کروسوم یا جنسی غدود میں بے قاعدگیوں کی وجہ سے اس میں دونوں جنسوں کے اعضاء یا خصوصیات ظاہر ہوجاتی ہے اور نفسیاتی بھی جس میں کسی ایک صنف یا جینڈر میں میں پیدا ہونے والا فرد بشمول ہم جنس پرستی کے دوسرے صنف میں پیدا ہونے والے افراد کی طرح کا جنسی میلان رکھتا ہے- پہلی قسم جنکو جدید طبی اصطلاح میں ِانٹرسیکس یا بین صنفی ہجڑا اور اسلامی فق کی زبان میں خنثی کہا جاتا ہے تو ظاہر ہے کسی بھی معذور کی طرح انسانی اور اسلامی اخلاقیات کے تحت طبی علاج اور معاشرے کے سہارے کے مستحق ہوتے ہیں اور اس علاج میں جنسی اعضاء کی جراحی یا سرجری بھی شامل ہے- میڈیکل سائنس کی تاریخ میں ایک بھی ایسا کیس نہیں ہے جس میں کسی خنثی کے مردانہ اور زنانہ دونوں اعضاء موثر ہو اسلئے سرجری کے عمل سے ایسے کئی کیسز میں مریض کے موثر جنسی اعضاء رئیسہ کو بحال کرکے انکے اصلی جنس کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے- دوسری قسم جنکا مسلہ نفسیاتی اور اسلام سمیت اکثر مذہب اور روایتی اقدار کے تحت اخلاقی ہے اپنے اعلانیہ جنسی رحجانات کے لحاظ سے کئی صورتوں پر مشتمل ہے جنکیلئیے ماڈرن مغربی یا سیکولر معاشروں میں ہومو سکچول (ہم جنس پرست) ، گے، لزبین اور بائیسکچول جیسے اصطلاحات ہوتے ہیں اور جنھیں اجتماعی طور پر LGBT طبقہ کہا جاتا ہے- اسلامی فقہ میں اس طبقے کو عمومی طور پر مخنث کہا جاتا ہے اور اسلامی نظام عدل صرف انکے غیر فطری احساسات یا رحجانات کو یا محض کسی کے مخنث ہونے کو جرم قرار دیکرانکےلئے کوئی سزا تو تجویز نہیں کرتا لیکن مغربی سیکولر معاشرے کے اقدار کے برعکس اس طبقے کے جنسی ذوق کیلئے معاشرتی اقدار اور قوانین کو بدلنے کی جازت نہیں دیتا- اس میں ان طبقے کے غیر فطری شادیوں کو ناجائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ سرجری کے ذریعے قدرتی غدود یا فطری جنسی اعضاء میں تبدیلی پر پابندی بھی شامل ہے-

مغربی لادین سیکولر قوانین میں اخلاقیات سے مذہبی اور فطری اقدار کی مکمل جدائی کے باعث پیدائشی صنف یا جینڈر اور اپنے ذاتی رحجان یا ذوق کے تحت اختیار کے گیے شعوری سکس یا جنس کو دو مختلف چیزیں قرار دی گئی ہے جبکہ اسلامی قوانین اور اقدار اس طرح کے کسی مصنوعی خود ساختہ شناخت کو تسلیم نہیں کرتے جسکا اثر کسی فرد کی ذاتی جنسی زندگی تک محدود نہیں رہتا بلکہ خاندان کا ادارہ اور معاشرتی اقدار کو متاثر کرتا ہے- پاکستان میں ٹراسنجینڈر بل کو ڈرافٹ کرنے والوں یا تو مسلے کو نوعیت کے متعلق اپنی کم علمی یا جہالت یا پھر کسی ایجنڈے کے تحت اس دونوں متنوع طبقات کو ٹرانسجنڈر کے عمومی اصطلاح کے تحت ایک ہی قانون میں خصوصی حقوق دیے ہیں جس سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب کے نشان دہی پر بوجوہ شدید قسم کے اعتراضات اور رد عمل آیا ہے جس میں ظاہر ہے سینیٹر صاحب کا مواقف اصولی طور پر درست ہے- مجوزہ بل پر اعتراض کی وجوہات میں اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی خلافورزی کے علاوہ ایک جائز اعتراض یہ بھی ہے کہ پاکستانی جیسے معاشروں مذہب کے علاوہ بھی غیر مسلم اور سخت مذہبی رحجانات نہ رکھنے والے افراد اور طبقات کے بھی کچھ حساس معاشرتی روایات ہوتے ہیں- معاشرے کے عمومی اقدار کے خلاف رحجانات یا جنسی زوق رکھنے والوں کی طرف سے بل کے تحت بنے قوانین کے غلط استعمال کے ذریعے ایسے افراد کا اپنی خود ساختہ جنسی شناخت کے تحت معاشرتی میل جول شدید قسم کی معاشرتی پیچیدگیوں اور متشدد جرائم کا باعث سکتی ہے- اسلئے سیکولر معاشروں میں بھی عمومی معاشرتی اقدار کے خلاف ایسے متنازعہ قوانین سے اجتناب کیا جاتا ہے- جہاں تک اسلامی فقہ کی بات ہے تو نیم خواندہ دیسی لبرلوں اور سرخوں کے عمومی تاثر کے برعکس باقی پوسٹ ماڈرن معاشرتی اور قانونی مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی تعلیمات بانجھ نہیں ہیں- رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں بھی تیسری جنس موجود تھی جنکا ذکر بخاری اور ابو داوود کے روایات میں ملتا ہے- بعض کے نام بھی ملتے تھے جیسے کہ معیت ،نافع ،ابوماریہ الجنّہ اور مابور اور یہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ شرائع اسلام ادا کرتےتھے۔ نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے، پورے شہری وں انسانی حقوق رکھتے تھے اور دیگر امور خیر بھی بجا لاتے تھے۔ ان کے کچھ طبقات کی سماجی اقدار کے خلاف حرکتوں کی وجہ سے ان کے خلاف کچھ معاشرتی پابندیاں لگا دی گئی تھی- اسی طرح روایتی اسلامی اصول قانون میں مخنث، خنثی اور ہم جنس پرست کے تین مختلف صورتوں واضح فرق اور متعلقہ احکام آج کے پوسٹ ماڈرن معاشرتی جنسی مسائل میں بھی اسلامی فقۂ کی رہنمائی کیلئے موجود ہیں– اس طرح اگر انسانی حقوق کے نام پر قانون الہی کو کسی طبقے کے ذوق یا نفسیاتی عوارض کی خاطر بدلنے کا اختیار معاشرے اور ریاست کو دے دیا جاے تو پھر تو بچوں کے جنسی زیادتی کرنیوالے اور جنسی یا نفسیاتی تسکین کیلئے کئی اور قسم کے "غیر روایتی” اعمال کو بھی جائز قرار دیکر قانونی تحفظ دیا جاسکے گا جن میں کئی سیکولر اور مکمل لادین معاشروں کے معیار پر بھی بدترین جرائم ہیں-

Leave a reply