تھیلسیمیا نسل در نسل چلنے والا مرض تحریر: سحر ملک

0
41

میرا ریسرچ ورک حمزہ فاؤنڈیشن پشاور میں تھا میں جب بھی ڈیٹا کولیکٹ کرنے جاتی تو وہاں بچوں کے ساتھ وقت گزارتی اسطرح ان سے دوستی ہو جاتی۔ ہر ہفتے یا تین دن بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہو پاتی تھی، ان میں ایک لڑکی طیبہ بھی شامل تھی جو لگ بھگ میری ہم عمر تھی لیکن دکھنے میں کافی کمزور دبلی پتلی سی تھی خون کے موذی مرض (تھیلیسیمیا) نے اس کی جسمانی ساخت پر اثر کر رکھا تھا۔
وہ جب بھی مجھے دیکھ لیتی تھی میرے پاس دوڑ کے آ جاتی تھی۔ اسکا تعلق چارسدہ سے تھا مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب اس سے بات ہوتی اسکی آنکھوں میں آنسو تیر رہے ہوتے تھے۔

ایک دن مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے پوچھ ہی ڈالا کہ تم رو کیوں رہی ہو اس نے کہا کہ یہ بھی کیسی زندگی ہے ہر ہفتے مجھے اپنے گھر والوں کو تکلیف دینی پڑتی ہے کہ مجھے پشاور لایا جائے اسکے والد ٹریفک پولیس تھے وہ اسے پشاور لانے کے لئے چھٹی نہیں لے سکتے تھے تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اسکی خواہش تھی کہ وہ بھی ہماری طرح زندگی جئے۔

طیبہ نے مجھے بتایا کہ اسکے ساتھ زیادہ تر چھوٹے بچے ہیں اور اسکا ایک ہی واحد دوست تھا جو اسکا ہم عمر تھا اسکا بھی چند دن پہلے انتقال ہو گیا ہے اسکے انتقال کے بعد طیبہ نے بھی جینے کی امید چھوڑ دی۔

یہ کہانی صرف طیبہ کی ہی نہیں ہے بلکہ ہر اس بچے کی ہے جو تھیلسیمیا جیسی خونی بیماری سے لڑ رہا ہے۔

آئیے سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ تھیلیسیمیا ہے کیا چیز؟ اور کس کو متاثر کرتی ہے؟

8 مئی یومِ تھیلسیمیا کے طور پہ منایا جاتا ہے۔
جس میں لوگوں کو تھیلسیمیا کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہے کہ کیسے اسے روکا جا سکتا ہے۔

تھیلسیمیا مرض میں مریض کے جسم میں ہیموگلوبن (خون کے سرخ ذرات) کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔

تھیلسیمیا میں خون کی کمی، تلی کا بڑھ جانا اور ہڈیوں میں گودے کی کمی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سےتھیلسیمیا سے متاثر بچہ ساری زندگی انتقال خون کے لئے ہسپتالوں کے چکر لگاتا رہتا ہے، یا پھر بون میرو ٹرانسپلانٹ ( Bone Marrow Transplants ) کے لئے ڈونر ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں ہر سال 8 سے 12 ہزار بچے اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ خاندان میں شادی کرنا ہے۔

تھیلیسیمیا کی تین اقسام ہیں تھیلیسیمیا مائنر، تھیلسیمیا انٹر میڈیا اور تھیلیسیمیا میجر۔

تھیلسیمیا مائنر:
جو لوگ والدین میں سے ایک سے نارمل اور ایک سے ابنارمل جین حاصل کرتے ہیں، ان کو تھیلیسیمیا مائنر کہتے ہیں۔ 

تھیلسیمیا انٹر میڈیا:
یہ تھیلسیمیا کی درمیانی قسم ہے، جس میں ہیموگلوبن 7 سے G9 تک رہتی ہے اور تھیلیسیمیا میجر کے مقابلے میں اس میں مریض کو خون لگوانے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔

تھیلسیمیا میجر:
یہ خون کی خطرناک بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو بروقت خون نہ دیا جائے تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ تھیلسیمیا ایک موروثی بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض سے انتقالِ خون، ہوا، پانی، جسمانی یا جنسی تعلق سے منتقل نہیں ہوسکتی اور نہ خوراک کی کمی یا طبی بیماری سے۔
اگر ماں باپ میں سے کسی ایک کو تھیلسیمیا مائنر ہو، تو بچے کو بھی تھیلسیمیا مائنر ہی ہوگا۔ اگر خدا نخواستہ ماں باپ دونوں کو تھیلسیمیا مائنر ہو تو ان کے ملاپ سے جنم لینے والا بچہ تھیلسیمیا میجر ہوگا۔ اس لئے ضروری بات یہ ہے کہ اگر خاندان کے اندر شادی ہونے جا رہی ہو، تو لڑکا لڑکی دونوں کے ٹیسٹ کروائے جائیں اس میں کوئی قباحت نہیں، اگر مائنر بیماری دونوں میں پائی جائے، تو شادی روک دی جائے۔ اس طرح باآسانی تھیلسیمیا کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔

آئیں تھیلسیمیا کے مریضوں کی مدد کریں۔
آپ کے خون کا عطیہ کئی زندگیاں بچا سکتا ہے۔

Leave a reply