شکریہ عمران خان، ہر چیز ڈبل مگر،سگریٹ کی قیمت کئی سال سے نہیں بڑھی

0
57

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر تیسرا شخص سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہے۔ ساتھ ہی ہمارے ملک میں کچھ ایسے بھی ہیں۔ جن کے پاس تین وقت کا کھانا کھانے کی اسطاعت نہیں ہوتی۔ لیکن وہ سگریٹ ضرور پیتے ہیں۔ ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 90 لاکھ افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے پاکستان میں سستے سگریٹس کی دستیابی۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مثال میں آپکو دے دیتا ہوں پاکستان میں 20 سگریٹ کے پیکٹ کی اوسط قیمت 38 روپے ہے یعنی تقریباً دو روپے کا ایک سگریٹ۔ اندازہ لگائیں کہ روٹی 10 روپے کی ہے۔ یعنی پاکستان میں روٹی سگریٹ سے پانچ گنا زیادہ مہنگی ہے۔ اگر ملٹی نیشنل برانڈز کی مہنگی سگریٹس کی بات کی جائے تو وہ بھی ایک سگریٹ دس روپے میں مل جاتا ہے یعنی مہنگا ترین سگریٹ بھی روٹی کی قیمت میں مل جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں چھ سے پندرہ سال کی عمر کے بارہ سو بچے روزانہ تمباکو نوشی کا آغاز کر رہے ہیں۔ پھر نوجوان میں خاص طور پر یونیورسٹی کے طلباء میں یہ لت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ ان میں تمباکو نوشی کی شرح 15 فیصد ہے۔ زیادہ تر مرد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ پھر ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 19 فیصد لوگ ایسے ہیں جو 18سال کی عمر میں ہی تمباکو کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ ۔ فی الحال تمباکو نوشی سے صحت کے نظام پر اضافی بوجھ پڑنے کے علاوہ نوجوانی کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ تمباکو نوشی سے سالانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد موت کا شکار ہوتے ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پھر برطانیہ کی آکسفورڈ اکانومی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 78 ارب سے زائد سگریٹ کی اسٹکس اسموک کی جاتی ہیں۔ جن میں 33 ارب سگریٹ اسٹیکس غیر قانونی ہیں۔ ان غیر قانونی سگریٹ اسٹیکس میں سے ساڑھے 8 ارب اسٹکس اسمگل کی جاتی ہیں جبکہ تقریباً 33 ارب اسٹکس ملک میں غیر قانونی طور پر تیار ہوتی ہیں۔۔ پھر صحت کے حوالے سے دیکھیں تو اتنا تمباکو نوشی سے ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا جتنے اخراجات ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔PAKISTAN INSTITUTE OF DEVELOPMENT ECONOMICSکی اسٹڈی کے مطابق تمباکو نوشی سے متعلقہ تمام بیماریوں اور 2019 میں ہونے والی اموات کی وجہ سے ہونے والے کل3.85بلین ڈالرز کے اخراجات ہوئے ۔ جو کہ پاکستان کے GDP کا 6.1 فیصد ہے۔جبکہ تمباکو نوشی کی کل ٹیکس collection120بلین روپے تھی جو کہ تمباکو نوشی سے ہونے والے خرچے کا تقریباً 20فیصد بنتا ہے ۔ پھر اس وقت پاکستان میں کینسر ، دل ، شوگر ، بلڈ پریشر اور سانس کی بیماریوں کی بڑی وجہ تمباکو نوشی ہے ۔ جو کہ تقریباً 71فیصد بنتی ہے ۔ صرف ان بیماریوں کے علاج پر پاکستان 2.74بلین ڈالرز خرچ کرتا ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ میں آپکو خطے کے ممالک اور مختلف اشیاء کے ساتھ comparisonکرکے بتاتا ہوں تاکہ آپکو بات سمجھ میں آجائے ۔۔ اس وقت پاکستان میں گولڈ فلیک نامی سگریٹ سستا ہے اور تقریباً 50 سینٹ میں پیکٹ دستیاب ہے جبکہ یہی سگریٹ بھارت میں چار ڈالر، بحرین میں 4.16 اور متحدہ عرب امارات میں 4.36 ڈالر میں دستیاب ہے۔ اب مہنگے سگریٹ کی قیمت دیکھیے۔ گولڈ لیف سگریٹ کا پیکٹ پاکستان میں 1.13 ڈالر، بنگلہ دیش میں 1.90،بھارت میں 2.48، سعودی عرب میں 3.47 اور سری لنکا میں 6.71 ڈالر میں دستیاب ہے۔ یعنی پاکستان کے مقابلے میں سری لنکا میں یہ سگریٹ تقریباً پانچ ڈالر زیادہ مہنگا ہے۔ ایسے ہی پاکستان میں 2019 سے 2021 تک گوشت 32 فیصد، چکن 168 فیصد، انڈے 83 فیصد، دودھ 51 فیصد تک مہنگے ہوئے لیکن اسی عرصہ میں سگریٹ ایک فیصد بھی مہنگے نہیں ہوئے۔ اس لیے یہ دعویٰ کہ تمباکو کی صنعت بہت ٹیکس دیتی ہے ۔ صرف سکے کا ایک رخ ہے ۔ ۔ پاکستان دنیا کے ان 15ممالک میں شامل ہے جہاں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے معاشی اور صحت کے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ تمباکو کے استعمال میں موجودہ ٹیکس کی شرح کا پانچ گنا سختی سے تجویز کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سگریٹ پینے والوں میں 60 فی صد افراد سگریٹ نوشی سے پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں تاہم ان میں سے محض30 فیصد ہی کو ترک تمباکو نوشی کے مراحل میں ضروری سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں صرف 23 ممالک میں تمباکونوشی چھوڑنے کے خواہش مندوں کا ان کی حکومتیں ساتھ دیتی ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اب عالمی ادارہ صحت کی طرف سے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہاگیا ہے کہ وہ ٹوبیکو فری ماحول قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لئے لوگوں کو شعور فراہم کریں، سگریٹ نوشی ترک کرنے کے خواہش مندوں کا ساتھ دیں ، انھیں ایسے ہتھیار فراہم کریں کہ وہ اسے بہ آسانی ترک کرسکیں۔۔ دنیا بھر میں چھ لاکھ افراد ایسے بھی ہیں جو سگریٹ کے دھوئیں سے بیمار ہوتے ہیں حالانکہ وہ خود تمباکو نوشی نہیں کرتے بلکہ ان کے قریب کوئی دوسرا فرد سگریٹ پیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ہلاک ہونے والے 70لاکھ افراد تمباکو نوش ہوتے ہیں جبکہ دس لاکھ بیس ہزار افراد بلواسطہ طور پر تمباکونوشی سے متاثر ہوکر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ تمباکو اور اس کے دھوئیں میں تقریباً سات ہزار کیمیکل موجود ہوتے ہیں جن میں اڑھائی سو کے قریب انسانی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ پائے گئے ہیں اور پچاس سے زائد ایسے کیمیکل بھی موجود ہوتے ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ تمباکو کے دھوئیں سے خون کی نالیاں سخت ہوجاتی ہیں جس سے ہارٹ اٹیک اور اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔۔ ویسے سگریٹ چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔ دراصل ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اگر ہم فیصلہ کر لیں تو ترک سگریٹ نوشی مشکل نہیں ہے۔ زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں جو سگریٹ نہیں پیتے۔۔ جب سگریٹ کی طلب ہو تو خود سے عہد کریں میں قوت ارادی کا مضبوط ہوں ،میرا فیصلہ ہے میں سگریٹ نہیں پیوں گا ۔ اس کے ساتھ خود ترغیبی کے ذریعے خود کو ہی سگریٹ کے خلاف لیکچر دیں۔ ۔ مراقبہ ، یوگا اور پابندی سے ورزش کرنے سے سگریٹ نوشی سے نجات مل جاتی ہے کیونکہ نکوٹین کی طلب میں اس وقت کمی آجاتی ہے جب ورزش کی جا رہی ہوتی ہے ۔ لیکن سب سے اہم آپ کی قوت ارادی ہی ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ایک تحقیق کے مطابق مراقبے کی مشق سے تمباکو نوشی کے عادی افراد کیلئے اس لت سے چھٹکارا پانا آسان ہوجاتا ہے۔ چاہے آپ اسے چھوڑنے کی کوشش نہ بھی کر رہے ہو۔ جو افراد آغاز پر سگریٹ نوشی سے گریز کرنے کی کوشش شروع کرتے ہیں ان کی کامیابی کا کافی زیادہ امکان ہوتا ہے۔ نکوٹین کی طلب میں اس وقت کمی آجاتی ہے جب ورزش کی جا رہی ہوتی ہے۔ ۔ یاد رکھیں آپ کے پھیپھڑوں میں ایسی ’حیران کن‘ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ سگریٹ نوشی کے باعث ہونے والے نقصان کی مرمت کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو سگریٹ نوشی کو ترک کرنا پڑے گا۔ اگر معاشرے کے سنجیدہ اور باشعور طبقہ نے اس طرف توجہ نہ کی تو شاید کوئی گھر اس تباہی سے نہ بچ سکے۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ ڈاکٹرز ، پروفیسرز، ٹیچرز ، علماء سب کے سب عوامی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کریں۔ تعلیمی اداروں میں مباحثے اور سیمینار منعقد کروائے جائیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی سگریٹ اور دیگر منشیات کے تباہ کن اثرات سے عوام کو آگاہ کرے۔۔ ایسے نعرے اور سلوگن عام کئے جائیں کہ سگریٹ جلتا ہے تو کینسر پلتا ہے۔ نشہ کے عادی افراد سے نفرت کی بجائے ہمدردی کی جائے اور ان کا علاج کرکے انھیں زندگی کی طرف واپس لوٹایا جائے۔ ہمارا دین بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی ، اس نے ساری انسانیت کو بچالیا۔

Leave a reply