فرقہ وارانہ لیڈر کی خیالی چال
ایک فرقے کے رہنما کی ایک ابتدائی حکمت عملی ہوتی ہے کہ اپنے پیروکاروں کو خاص یا مظلوم ہونے کا احساس دلائے، جبکہ باہر کے لوگوں کو گمراہ، بے راہ روی کا شکار یا بدعنوان کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس سے فوری طور پر بیرونی اثرات کے خلاف ایک دیوار قائم ہوتی ہے، اور گروہ اندرونی طور پر مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب باہر کے لوگ مذاق اڑاتے ہیں، غصے کا اظہار کرتے ہیں، یا فرقے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس سے فرقے کا حفاظتی دائرہ اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ ان ردعمل سے فرقے کے رہنما کی جانب اپنے پیروکاروں کو دی گئی دنیا کے بارے میں وارننگز کو سچ مانا جاتا ہے۔
کسی بھی فرقے کے رہنما اکثر اس عمل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں لہذا وہ غیر متوقع رویے اختیار کرنے لگتے ہیں، بڑے بڑے سازشی نظریات گھڑتے ہیں، یا بدسلوکی پر اتر آتے ہیں، جو باہر کے لوگوں کو قدرتی طور پر پریشان کرتا ہے۔ لیکن اس سےعام لوگوں کی تنقید اور غصہ یا نفرت کو مزید تقویت ملتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پیروکاروں کی اپنے رہنما اور گروہ سے وفاداری اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔ اس طرح ایک شیطانی چکر شروع ہو جاتا ہے جس میں دونوں فریق پھنسے رہتے ہیں۔ لیکن تنگ آکر کچھ پیروکار آخر کار فرقہ چھوڑ دیتے ہیں ، جبکہ دیگر پیروکار اس کے برعکس مزید وفادار ہو جاتے ہیں، یا تو رہنما کے لیے ہمدردی کے باعث یا باہر کے لوگوں کے خلاف بڑھتی ہوئی بے اعتمادی اور نفرت کے احساس سے۔
فرقے کے اراکین اکثر اپنے رہنما کے خراب رویے کا جواز پیش کرتے ہیں، یا تو انہیں ایک مقدس شخصیت مانتے ہیں یا بیرونی عوامل کو ان پر زیادہ دباؤ ڈالنے کا الزام دیتے ہیں۔ اس طرح کا تصور رہنما کے مرکزی کردار کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ جیسا کہ نیو مین (نیا انسان ایک یوتوپیائی تصور ہے جس میں ایک نئے مثالی انسان یا شہری کی تخلیق کی بات کی جاتی ہے، جو غیر مثالی انسانوں یا شہریوں کی جگہ لے ) نے بیان کیا، ایسی تحریکوں کے مرکز میں ایک رہنما ہوتا ہے جس کے گرد ایک قریبی اندرونی حلقہ ہوتا ہے، جو ایک خفیہ ماحول پیدا کرتا ہے اور لیڈر کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ یہ اندرونی حلقہ جان بوجھ کر غیر مستحکم رکھا جاتا ہے تاکہ گروہ کا انحصار رہنما پر مزید گہرا ہو جائے