الیکٹرانک میڈیا کا دوہرا معیار تحریر:بابر شہزاد

0
25

میڈیا کسی بھی ملک کا ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے کیونکہ معاشرے کے نکھار اور بگاڑ میں میڈیا کا کلیدی کردار ہوتا ہے کہ جب تک یہ لوگ بلا کسی حیل و حجت کے معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں تب تک اس اہم ستون کی اہمیت برقرار رہتی ہے لیکن جیسے ہی یہ تفرقہ شروع کر دیں اور چاپلوسی پر اتر آئیں تو اپنی ساکھ اور اہمیت کھو دیتے ہیں۔

میں اپنی اس بات کو کچھ سادہ مثالوں سے ثابت کروں گا کہ کیسے کچھ نام نہاد صحافیوں نے صحافت کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کے ایجنڈے پر کام کیا۔ ن لیگی دور حکومت میں عائشہ گلالئی جو کہ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں پر ایم این اے بن کر اسمبلی میں براجمان تھیں تو نہ جانے کس کی ایماء پر اس نے اس وقت من گھڑت کہانی میڈیا کے سامنے پیش کر دی کہ کیسے عمران خان اور اس کے موبائل پر پیغام بھیجتے ہیں اور اس کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بس اس کی پریس کانفرنس کرنے کی دیر تھی کہ میڈیا کی بھیڑیں بغیر کسی ثبوت کے عمران خان پر چڑھ دوڑے اور روزانہ رات کے ٹاک شوز میں عدالتیں لگتیں اور روزانہ عمران خان کو سزا دینے کے متلاشی نظر آتے۔ اور تو اور ایک بڑے تگڑے صحافی نے یہ تک کہہ دیا کہ اس نے گلالئی کے موبائل میں عمران خان کے پیغامات دیکھے ہیں جس کو دیکھنے کے بعد وہ س نتیجے پر پہنچا ہے کہ گلالئی کے الزامات میں صداقت ہے۔ ہر طرف ایک طوفان بدتمیزی برپا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی پگڑی اچھالی جاتی لیکن نہ تو کوئی ثبوت عدالتوں میں پیش کیا گیا اور نہ ہی کوئی سزا ہوئی اور سب ڈرامہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا لیکن ان نام نہاد صحافیوں نہ کبھی شرم آئی کہ اپنے کیے ہوئی پروگرامز پر معافی ہی مانگ لیتے اور نہ ہی گلالئی اس کے بعد منظر عام پر آئیں کہ اس خاتون نے پیسوں کی خاطر اپنی عزت تک داؤ پر لگا دی۔ یہ کوئی پہلا واقع نہیں تھا کہ مخالفین نے عمران خان کو نیچا دکھانے کے لیے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے کیونکہ اس سے پہلے یہودی ایجنٹ کا نعرہ بھی لگایا گیا اور ریحام خان کی قسط بھی سب کو یاد ہے کہ کیسے مطلقہ ہونے کے بعد اس نے عمران خان کی کردار کشی کی اور اب تک کر رہی ہے لیکن کمال کا حوصلہ اور ہمت ہے عمران خان میں کہ کبھی مخالفین کو ان کی طرح جواب نہیں دیا۔ عائشہ گلالئی اور ریحام خان نہیں انتہائی غلیظ الزامات لگائے اور روزنہ کی بنیاد پر لگاتیں تھیں لیکن خان صاحب نے کبھی ان کو جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی ان کی زبان میں جواب دینے سے منع کیا۔

اب آ جاتے ہیں اور تازہ واقع کے اوپر کہ کچھ دن قبل سابقہ ن لیگی گورنر اور پاکستان مسلم لیگ ن کا اہم رہنما زبیر عمر کی نازیبا ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں گورنر صاحب کی خواتین کے ساتھ رنگرلیوں کو ہر کسی نے دیکھا کہ کیسے اپنی بیٹیوں کی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ ان کو نوکری اور پتہ نہیں کیا کیا جھانسا دے کر اپنے بستر کو گرم کرتے رہے۔ بہت ہی چونکا دینے والی ویڈیوز تھیں اور میڈیا کے لیے بہت بڑی خبر بھی تھی لیکن چونکہ یہ عمران خان نہیں تھا لہذا نہ تو کوئی ٹاک شو ہوا اور نہ اس بار کوئی بھی صحافی ان غریب لڑکیوں کی آواز بنا جو اس درندے نما انسان کی حوس کا نشانہ بنیں۔

اگر خدانخواستہ یہ ویڈیوز عمران خان یا کسی تحریک انصاف کے رہنما کی ہوتیں تو اب تک ان نام نہاد صحافیوں نے لڑکیوں کی مشک کو پہچانتے ہوئے کئی پروگرام کر لیے ہونے تھے لیکن چونکہ یہ ن لیگی رہنما کی ویڈیوز ہیں تو نہ تو کوئی لڑکی کے گھر تک پہنچا اور نہ ہی کسی صحافی نے زبیر عمر سے سوال پوچھنے یا اس کے خلاف پروگرام کرنے کی جسارت کی بلکہ کچھ خاتون صحافیوں سمیت بعض صحافیوں نے تو باقاعدہ اس کا ساتھ دیا کہ سوشل میڈیا صارفین بہت تنقید کر رہے تھے تو کچھ صحافی حضرات باقاعدہ طور پر زبیر عمر کے ترجمان کے طور پر اس کا دفاع کر رہے تھے جو کہ انتہائی حیران کن بات ہے۔

تو قارئین آپ نے دیکھا کہ ہمارے میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں کیسے منافقت کی جاتی ہے اور صرف وہی خبریں مرچ مصالحے ڈال کر سنائی جاتی ہیں جن کے بدلے میں بہت سے مالی فوائد میسر ہوں۔ صحافت ایک مشکل پیشہ ہے ان لوگوں کے لیے جو محنت کرتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے کام کرتے ہیں لیکن آج کل کے صحافیوں نے اس پیشے کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ وہ صحافی صرف اور صرف پیسے کو اپنے خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک انہیں اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔ 

Twitter handle: @babarshahzad32

Leave a reply