منشیات کا باپ، آئس کا نشہ
تحریر: محمد سعید گندی
پاکستانی معاشرہ منشیات کے زہر کے ہاتھوں سسک سسک کر دم توڑ رہا ہے۔ خاص طور پر دو نمبر سستی آئس غریب سے امیر تک بے دریغ استعمال کی جا رہی ہے۔ پنجاب، یعنی جنوبی پنجاب کا آخری ضلع ڈیرہ غازی خان ہے، جس کے مغرب میں صوبہ بلوچستان شروع ہو جاتا ہے۔ شہر ڈیرہ غازی خان کے مغربی علاقے میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ ویسے تو صوبہ بلوچستان کے تمام علاقوں سے منشیات پنجاب بآسانی پہنچ جاتی ہے، جن میں گلستان، نورک، چمن، پشین، کوئٹہ، خضدار، نوشکی، دالبندین اور میختر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے ملحقہ علاقوں سے بھی منشیات بلوچستان آرام سے پہنچ جاتی ہے، پھر بلوچستان کے علاقے رکنی سے بواٹہ، فورٹ منرو، راکھی تاج اور سخی سرور تک تو آرام سے پہنچ جاتی ہے، اور یہاں سے مختلف علاقوں سے منشیات ڈیرہ غازی خان شہر میں بآسانی پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دو اور راستے بھی ہیں جہاں سے ان کو آسانی ہوتی ہے۔
سیکورٹی فورسز امن بحال کرنے والے مختلف ادارے کارروائی کرتے ہیں، بڑی بڑی کھیپ پکڑی جاتی ہے، مگر پھر بھی شہر اور گرد و نواح میں منشیات بآسانی دستیاب ہوتی ہے۔ گلیوں، محلوں، روڈ کنارے منشیات کے عادی افراد کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے، آخر ان کو نشہ پہنچ کیسے رہا ہے؟ اگر پہنچ رہا ہے تو کون مہیا کرتا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ یہ منشیات اتنی وافر ملتی ہے جیسے کریانہ کی دکان پر چائے کی پتی اور چینی۔ ڈیرہ غازی خان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جن کی بڑی تعداد نوجوان نسل ہے۔
آئس کا نشہ مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب تو وہ موٹر سائیکل اور کاروں کے بلب نکال کر اس کو توڑ کر اس کے ذریعے استعمال کرتے ہیں، جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ اگر آپ کے گرد و نواح میں کوئی ایسی واردات نظر آئے تو سمجھ لیں آپ کے قریب ہی کوئی آئس کا نشہ کرنے والا موجود ہے جو کہ آپ کے لیے اور آپ خاندان کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آئس نشہ کیا ہے؟ اس میں مبتلا افراد کیا محسوس کرتے ہیں؟ آئس نشہ کرتے کیوں ہیں؟ اس نشے پر بات کرنے سے پہلے آپ سب کو ایک پرانی کہاوت گوش گزار کرنا چاہتا ہوں گو کہ کہاوت کا اس تحریر سے کوئی ربط تو نہیں بنتا مگر بہت کچھ سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کہتے ہیں پرانے وقتوں کی بات ہے سچ اور جھوٹ اکٹھے بیٹھے تھے تو جھوٹ نے کہا یہ سامنے کنواں ہے اس کا پانی بھی صاف شفاف ہے ہم دونوں اس میں ننگا ہو کر نہاتے ہیں۔ سچ نے پہلے سوچا پھر کنویں کے پانی کو چیک کیا تو وہ واقعی صاف شفاف تھا۔ پھر دونوں سچ اور جھوٹ اپنے کپڑے اتار کر ننگے ہو کر کنویں میں نہانے لگے، جھوٹ نے موقع پاتے ہی کنویں سے باہر نکل کر سچ کے کپڑے پہن کر بھاگ گیا۔ سچ بے چارہ ننگا کنویں میں رہ گیا۔ اب سچ بے چارہ جہاں بھی جاتا ہے ننگا ہونے کی وجہ سے شرمسار ہوتا ہے، آخر وہ تنگ آ کر کنویں میں بے نامی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جھوٹ کیوں کہ سچ کے کپڑوں میں ملبوس ہے لہذا وہ اب بھی اپنی زندگی دیدہ دلیری سے گزار رہا ہے۔ دو نمبر لوگ اپنا دھندہ دھڑلے سے کر رہے ہیں، نشان دہی کرنے والوں کو اکثر پولیس اور مافیا کے ہاتھوں پریشانی میں مبتلاء ہونا پڑتا ہے ۔ بہرحال چلتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔۔۔
ماہرین کے مطابق بعض اوقات ڈپریشن میں مبتلا لوگ نشے کا استعمال شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ مزید ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ آئس کا نشہ کرنے کے بعد بھوک و پیاس سے مبرا انسان 24 سے 48 گھنٹے بآسانی جاگ سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں میں منشیات کا استعمال وبا کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ منشیات فروشوں کی ہٹ لسٹ پر کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ ہیں کیونکہ امیر اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں سے رقم آسانی سے مل جاتی ہے۔ آئس ایک ایسا نشہ ہے جس کو پہلی بار استعمال کرنے سے انسان کے اندر خوشی کے ہارمونز انتہائی ایکٹیو ہو جاتے ہیں، جاگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے انسان انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ آئس کا نشہ 36 سے 72 گھنٹے تک ہوتا ہے اور وہ انسان 72 گھنٹوں تک جاگتا رہتا ہے۔ پہلی دفعہ انسان کو آئس استعمال کرنے سے جو لذت اور خوشی ملتی ہے وہ آہستہ آہستہ کم ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ انسان آئس کی ڈوز بڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ پہلی والی خوشی محسوس کر سکیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آئس انسان کی ہڈیوں کو پکڑ لیتا ہے اور پھر وہ انسان اس قبیح عمل کا عادی بن جاتا ہے۔ آئس استعمال کرنے والے انسان پر بھروسہ کرنا بیوقوفی ہے۔ آئس استعمال کرنے والے انسان کے ہاتھوں سے کسی بھی وقت ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے جب وہ نشے کی حالت میں ہو۔ آئس نشہ نہ استعمال کرنے کی علامت یہ ہے کہ بندہ 24 گھنٹے سویا رہتا ہے۔ اس میں کوکین، چرس، ہیروئن کی طرح بدبو بھی نہیں ہوتی، شفاف شکل اور بے بو خاصیت نے اس نشے کو دنیا بھر میں مقبولیت بخشی ہے۔
جب اس نشے سے پیدا ہونے والے احساسات ختم ہوتے ہیں تو اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے نشے کا عادی شخص دماغی خلل، چڑچڑے پن، گھبراہٹ، تھکاوٹ، ڈپریشن اور ہیجانی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ مایوس کن کیسز وہ ہیں جن میں کم عمر افراد سمجھتے ہیں کہ آئس سے ڈپریشن میں کمی لائی جا سکتی ہے اور امتحانات میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ آئس کے مسلسل استعمال سے گھبراہٹ، غصہ اور شک کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ طبیعت میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے اور فیصلے کی قوت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسا شخص اپنی نظر میں انتہائی خود اعتماد بن جاتا ہے اور اسی لیے کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ یہی نہیں یہ نشہ پرتشدد طبیعت کو جنم دیتا ہے۔ ویسے تو منشیات کی ساری اقسام ہی انسان کو اندر سے کھوکھلا کرکے اس کو موت کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں لیکن ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق آئس نشہ دیگر تمام منشیات کی اقسام سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔
حال ہی میں ایک نوجوان نے علی الصبح اپنے ہی گھر میں فائرنگ کر کے اپنے والد سمیت تین افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر ملزم کے بھائی کی مدعیت میں درج کروائی گئی جس میں بتایا گیا کہ ملزم بھائی آئس کے نشے کا عادی تھا جس کے باعث اس کی ذہنی حالت ناکارہ ہو چکی تھی۔ نشے کا عادی ایک ایسا نوجوان بھی لایا گیا جس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اسے لگتا تھا کہ اس پر جنوں کا سایہ ہے۔ آئس کے نشے سے انسان کئی گنا زیادہ متحرک اور چست ہو جاتا ہے اور اس کے حواس اتنے متحرک ہوتے ہیں کہ جو چیز اور بات وجود نہیں بھی رکھتی، وہ انھیں نظر آنے لگتی ہے اور وہ اس پر بضد ہوتے ہیں اور بعض اوقات قتل تک کرنے سے نہیں کتراتے۔ آئس کے نشے میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اور بڑی عمر کے تمام لوگ شامل ہیں۔
اگر آپ یہ نشہ شروع کرتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا۔ بس یہی آئس آپ کی ساتھی ہوتی ہے، محبت کو چھوڑیے باقی تمام تر احساسات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ نشہ چھٹنے کے بعد اس نشے کی طلب پھر بڑھ سکتی ہے کم نہیں۔ پنجاب میں سے خیبرپختونخوا میں نشے کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد اس لیے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نشے کے عادی افراد بھی وہاں جاتے ہیں اور اس کی وجہ خیبرپختونخوا میں نشے کی آسانی اور سستے میں دستیابی ہے۔ خیبرپختونخوا کے افغانستان کے ساتھ طویل سرحد کی وجہ سے نشہ پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیروئن کا نشہ کرتے تھے جو اب بہت مہنگی ہو چکی ہے جبکہ ایک گرام تک آئس پشاور میں صرف 400 روپے میں مل جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت نشے کے شکار افراد کی مجموعی طور پر لگ بھگ 67 لاکھ کے قریب ہے جن میں 78 فیصد مرد جبکہ 22 فیصد خواتین ہیں۔ بعض دیگر اداروں کی رپورٹس میں یہ تعداد 76 لاکھ تک بتائی گئی ہے۔ آئس نشے کا عادی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، دوست میں تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر وہ جرم کی جانب مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس کے اندر سماج کے خلاف نفرت بیدار ہوتی ہے جو اسے جرم کے دوران سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ کئی سال تک آئس کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ہر نشے کا انجام دردناک موت ہی ہوتا ہے لیکن آئس کے نشے کا عادی پاگل پن کا شکار ہو کر اپنے خاندان و معاشرے کے لیے کسی پاگل کتے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈیرہ غازی خان جو جنوبی پنجاب کا آخری ضلع ہے، منشیات کی ترسیل کے حوالے سے ایک اہم گزرگاہ بن چکا ہے۔ اس کے مغرب میں بلوچستان شروع ہوتا ہے، جبکہ مغربی سرحد پر کوہِ سلیمان کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے واقع ہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں جیسے لورالائی ،موسی خیل ،گلستان، نورک، چمن، پشین، کوئٹہ، خضدار، نوشکی، دالبندین، اور میختر سے منشیات کی بڑی مقدار آسانی سے پنجاب پہنچتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے راستے منشیات کی ترسیل کا ایک مضبوط نیٹ ورک قائم ہے۔ رکنی، بواٹہ، فورٹ منرو، راکھی تاج، اور سخی سرور جیسے علاقے منشیات کی نقل و حمل کے لیے معروف گزرگاہیں ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق ان راستوں پر چیکنگ اور کارروائیوں کے باعث اب منشیات کے سمگلروں نے اپنے راستے تبدیل کر لیے ہیں۔ بلوچستان کے ضلع موسی خیل سے تونسہ کے علاقے تک کئی متبادل خفیہ راستے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں بارتھی روڈ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ اطلاعات ہیں کہ بارتھی روڈ اور دیگر راستوں پر بارڈر ملٹری پولیس (بی ایم پی) کے بعض اہلکار منشیات فروشوں کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بی ایم پی کے کچھ افسران، جو اہم چیک پوسٹوں کے انچارج ہیں، خود بھی اس مکروہ دھندے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک واقعہ میں بی ایم پی کے ایک نائب دفعدار جو اب دفعدار ہے اور ایک اہم تھانہ کا ایس ایچ او بھی ہے ،کے بیٹے کو پنجاب پولیس نے منشیات سمیت گرفتار کیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ مزید منظرِ عام پر آیا۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے منشیات صرف ڈیرہ غازی خان شہر تک محدود نہیں بلکہ پورے جنوبی پنجاب اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں تک آسانی سے پہنچائی جا رہی ہے۔جوکہ ارباب اقتدار اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔