عورت کی عظمت اورمعاشرہ تحریر: حمیرا الیاس

0
61

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں معاشرتی رویوں اور اقدار میں بہت فرق ہے۔ ہماری اسلامی اقدار کے مطابق عورت کا جو مرتبہ بیان کیا گیا ہے وہ بیت ارفع و اعلی، جس میں عورت کو کسی بھی گھرانے کا مرکزی کردار گردانا گیا ہے۔ ایک بیٹی، جو گھر کی رحمت کے طور پر گھر میں اترتی اور پھر گھر بھر کی رونق اور آنکھوں کا تارا بن جاتی۔ بیٹی کے طور باپ کے لئے دل کا سکون اور طراوت۔ ماں کے لئے راحت، اور دکھ درد کی دوست۔ یہی بیٹی اگر بڑی بہن ہے تو تمام چھوٹے بہن بھائیوں کو اپنے محبت بھرے آنچل میں سمو لیتی ہے، ماں بن کر انہیں پیار دینے والی بڑی بہن بسااوقات اپنی تمام زندگی کی خوشیاں تک اپنے بہن بھائیوں کی خاطر اپنے اوپر حرام کر لیتی۔
اگر چھوٹی بہن ہو تو تمام بھائیوں کی آنکھوں کاتارا، شرارتوں سے ہر وقت کھکھلایثیں بکھیرتی جگمگ کرتی سارے گھر میں قندیلیں بھارتی پھرتی۔ یہ بہن یا بیٹی کے جیسے جیسے رخصتی کے دن قریب آنے لگتے تو والدین کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگتے، اک انجانے خوف سے کہ آگے کیا ہوگا؟ کیا اگلے گھر میں ہماری بیٹی اتنی ہی خوش و خرم رہ پائے گی جتنا ہم نے رکھا؟ اس خوف پر بات سے قطع نظر، بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہونے کا سکون ان کے لئے باعث اطمینان رہتا۔ رخصت کرتے بھائیوں کے دل بھی پیاری بہنا کے جانے کا سوچ کر دھک دھک کر رہے ہوتے۔ اور یوں وہ بیٹی جو رحمت بنکر باپ کے آنگن میں اتری ہوتی وہ کسی کے گھر کی ملکہ بن کر رخصت ہوتی، جہاں دیدہ و دل فراش راہ کئے اس کا ہم سفراس کے لئے زندگی کی خوشیاں کشیدنے کا عزم دل میں بھر کر اسے خوش آمدید کرنے کو تیار ہوتا۔ اور یوں بیٹی سے پھر ماں بننے تک کے سفر میں عورت مکمل اہمیت کے احساس سے گزر کر کندن بن جاتی۔
اس تمام سفر میں عورت کا ہر روپ معاشرے میں عظمت کی بلندیوں پر دکھائی دیتا۔ لیکن اس مقام کا خود کو اہل ثابت کرنے کے لئے عورت کو بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں،ہر وہ عورت جو قربانیوں کی بھٹی میں جل کر نکل جاتی اس کے لئے یہ زندگی ہی مثل جنت بننے لگتی۔ عورت کی عظمت ہی تو ہے کہ اسے مرد کی سکینت کا باعث کہا گیا، بارہا قرآن حکیم میں مرد کے لئے احکامات کے ہمراہ مومن خواتین کو مخاطب کیا گیا، عورت کے لئے خاص طور حکمت والے قرآن میں ایک مکمل سورۃ اتاری گئی۔ تو اسلام نے تو عورت کی تعظیم میں کسر نہیں چھوڑی، یہ اسلام نے عورت کو عزت وتکریم ہی بخشی تو اسے معاشی فکر سے آزاد کردیا، اسکے لئے امت محمدیہ کی تربیت جیسا عظیم کام سونپا، تربیت کامطلب سمجھ رہے؟ اس کا مطلب آنے والی تمام نسل انسانی کے لئے راستے کی روشنی کے اسباب پیدا کرنا،یہ چھوٹا کام تو نہیں۔ معاشرتی اصولوں میں سب سے خوبصورت اصول، عورت کو تحفظ کی تہوں میں رکھ دیا گیا، اسکا نان نفقہ شادی سے پہلے باپ کے ذمہ، یا بھائی کی ذمہ داری، بعد از شادی یہ سب شوہر کو بہم پہنچانا، اور پھر بیٹے کے ذمہ۔ اسی پر اکتفا نہیں، اسے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا سب کی جائیداد میں حصہ دیا گیا، کیا یہ اسکے تحفظ کے لئے نہیں؟؟
تو نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ اسلام عورت کو اس مقام پرپہنچاتا کہ جس پر پہنچنے کی کوئی بھی انسان آرزو کرسکتا، تو ایسا کیا ہے کہ عورت تشنہ ہمیں اپنے معاشرہ میں مکمل اندازمیں وہ عظمت نساء نظر نہیں آتی؟؟
اولین وجوہات میں سے ایک اپنے مقام سے آگاہی کا فقدان ہے جو عورت کو بے چین کرتا ہے، اور اس کے بعد ایک ایسا شیطانی چکر شروع ہوتا ہے جو عورت کو پستی کی گہرائیوں میں لے جاتا، تو اپنے خالق سے ربط کا فقدان سب سے پہلی غلطی ہے جہاں سے عورت اپنے مقام سے گرتی۔ اس کے بعد جب ایک ماں کے رتبہ پر فائز ہو کر معاشرے کی تعمیر کے کام سے انکار کرتی تو دراصل ان تمام محبتوں سے دست بردار ہوجاتی جو بہترین خاکق، اللہ رب العزت نے اس کے ساتھ وابستہ کردی تھیں۔ عورت مرد کے مقام کو پانے کی کوشش میں ایک بلند مرتبہ کو ٹھکرا کر پھر بے سکونی کی وادی میں گم ہوجاتی ہے۔
جب تک عورت اپنے مقام پر مطمئن و شکرگزار نہیں ہوتی وہ معاشرے میں اس عظمت پر نہیں پہنچ پائے گی کو اسلام نے اس کے نصیب میں لکھ دی ہے۔
آج کی عورت کی بے سکونی کی وجہ وہ خود ہے، وہ صرف attitude of gratitudeسیکھ لے،اور اس کی تعلیم اپنے زیر تربیت اولاد کو دے دے تو معافی میں بڑھتی بے راہروی اور پستی کردار پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ غرضیکہ عورت کی عظمت اس کے کردار کی پختگی میں پوشیدہ ہے۔ اللہ کرے کہ لبرلزم کے لبادہ میں ملبوس عورت اپنا اصل مقام پہچان کر اسی عظمت کو پا لے جو امہات المومنین کا خاصہ رہی۔

Leave a reply