قائد اعظم محمد علی جناح سے عمران خان تک:اسرائیل اورپاکستان کی خفیہ محبت کا دلچسپ سفرنامہ

0
37

پاکستان اوراسرائیل کے تعلقات کی کہانی بڑی ہی دلچسپ ہے ، قبل اس کے کہ پاکستان اوراسرائیل کے درمیان تعلقات کے سفرپرنظردوڑائی جائے پہلے دنیا بھرمین سفارتی تعلقات کی اہمیت بیان کرنا ضروری ہے۔ اسرائیل کے ساتھ اقوام متحدہ کے193 میں سے 163 ممالک کے سفارتی تعلقات ہیں جبکہ30ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ان میں 18عرب لیگ اور9 اوآئی سی کےرکن ہیں۔جبکہ جنوبی کوریا،کیوبا اوربھوٹان کے بھی صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیل کے امریکا، چین ،بھارت اور یورپی ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔مشرق وسطیٰ میں اپنی علاقائی پوزیشن،سیاسی استحکام اور مضبوط معیشت کی وجہ سے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

 

 

قائد اعظم محمد علی جناح سے عمران خان تک:اسرائیل اورپاکستان کے درمیان بالواسطہ اوربلاواسطہ رومانوی تعلقات،اس وقت ایک طرف جہاں پاکستان سمیت دنیا بھرمیں یہ بحث زورپکڑرہی ہے کہ پاکستان پراسرائیل کوتسلیم کرنے کےحوالے سے سخت دباو ہے ،وہاں اس ساری کہانی کوافشان کرنے والے بھی زد میں ہیں ،

پاکستان میں اس وقت یہ موضوع بڑا اہم اورگرم دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان پراسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے شاید یہ پہلی کوشش ہے ، لیکن عامتہ الناس کواصل حقائق سے دور رکھ کرمخصوص مقاصد اورمخصوص طبقہ سرگرم ہے،

 

 

https://www.deccanherald.com/opinion/main-article/brace-for-pakistan-israel-ties-785385.html

عمران خان کے خلاف وہ لوگ بھی اس بحث میں شامل ہیں جوماضی قریب میں خود اسرائیل سے تعلقات کے خواہاں رہے ہیں اوراس سلسلے میں پاکستان سے دور چھپ چھپ کرخفیہ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں‌،

 

اسرائیل سے تعلقات اورمحبتیں بڑھانے کے سلسلے میں میڈیا سے وابستہ شخصیات کے بارے میں بھی اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھی اسرائیل کا خفیہ دورہ کرچکے ہیں ،

یہ دعوے پاکستان نہیں بلکہ خود اسرائیلی حکام ، میڈیا اوراسرائیل کے سرپرست امریکہ ،برطانیہ اوردیگرملکوں کی سفارتی شخصیات کی طرف سے سامنے آئے ہیں‌

یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز میں تعاون کا آغاز 1980 میں ہوا ۔ واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے سفارت خانوں میں آئی ایس آئی ، موساد،سی آئی اے اور ایم 16 پر مشتمل دس سال اینٹی سویت یونین آپریشن چلا۔

https://jcpa.org/article/pakistan-and-israel/

 

پاکستان کی مشکلات اورمسائل کودیکھا جائے تو اس میں 80 سے 85 فیصد وہ مسائل اورمشکلات ہیں جوان قوتوں کی طرف سے پیدا کردہ ہیں جوپاکستان کواسرائیل کے ساتھ گلے ملتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں لیکن پاکستان کے انکار نے ان کو غضب میں ڈال دیا ،

 

https://blogs.timesofisrael.com/pakistan-and-israels-secret-diplomacy/

 

 

پاکستان کو بھی علم ہے پاکستان نے یہ سارے مسائل برداشت کرلیئے لیکن اپنے نظریے پرقائم رہاکہ جب تک فلسطینیوں کوان کا حق نہیں مل جاتا پاکستان کبھی بھی اسرائیل کوتسلیم نہیں کرے گا ،

 

 

اس سارے سفر میں سوائے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اورنوازشریف کے سب کا یہ نظریہ رہا ہے ، جبکہ ان دو وزرائے اعظم نے پاکستان کے اس نظریے کوبائی پاس کرتے ہوئے ذاتی حیثیت سے کارورباری مراسم پیدا کرنے کی کوشش کی ، محترمہ کا کاروباری مقصد تو نہیں تھا تاہم وہ قوتیں جو شروع سے ہی محترمہ بے نظیر کے قریب رہی ہیں انہوں‌نےاپنے اثرورسوخ سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پرمجبورکیا

 

 

https://www.memri.org/reports/pakistani-writer-dr-sughra-sadaf-urges-pakistan-establish-diplomatic-ties-israel-says-thing

 

جبکہ اس کے برعکس میاں نوازشریف نے اپنے کاروباری مراسم اورلین دین کو وسیع ترکرنے کے لیے ذاتی حیثیت سے خفیہ ملاقاتیں کیں ،

 

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو کیا عمران خان پراسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے دباو پہلی کوشش ہے ، ایسا نہیں ہے بلکہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے ،

 

 

 

ان باتوں ، دعووں‌ اوررپورٹس میں کس حد تک صداقت ہے ، اس کی تصدیق اورتائید وہ قوتیں کررہی ہیں جواس میں براہ راست یاکسی اورواسطے سے شامل رہے ہیں‌

 

 

https://www.thenews.com.pk/print/521755-relations-with-israel-interesting-suggestions-start-pouring-in-for-pakistani-govt

 

دوسری اہم اورقابل غوربات یہ ہے کہ اس سارے عرصے کے دوران پاکستان اپنے عرب بھائیوں کے لیے کھڑا رہا ، پاکستان کواس نظریے پرقائم رہنے کی سخت سزا دی گئی ،جن کی خاطرپاکستان کھڑا رہا وہ بیٹھ گئے ، جن کی خاطرپاکستان نے اسرائیل سے نہ ڈیل کی نہ ڈھیل دی ، انہوں نے ڈیل بھی کرلی اورڈھیل بھی دے دی

مسئلہ یہ نہیں کہ یہ تعلقات کیوں بنانے کی کوشش کی گئی ، جس طرح معاشروں ،قوموں اوربرادریوں میں ایک فطری تعلق بہتر کرنے کی کوشش ہوتی رہتی ہے ، ایسے ہی ملکوں کے درمیان یہ خواہش پیدا ہوتی رہتی ہے ، خاص کراس دورمیں جب دنیا گلوبل یعنی ایک پیج پرہے توکسی بھی صورت میں کوئی ملک ایک دوسرے کے بغیرنہیں چل سکتا

 

لیکن پاکستان کا مسئلہ دنیا کی روایات اوراقدار سے مختلف ہے پاکستان لاالہ الآ اللہ کے نظریے پرقائم ہے اسی وجہ سے پاکستان لا الہ الآ اللہ کے ماننے والوں کی دلی آواز پرلبیک کہتے ہوئے ان تعلقات کوقائم کرنے سے دور ہے

 

https://eurasiantimes.com/how-israel-pakistan-relations-could-be-established-by-the-end-of-2020/

 

 

 

اسرائیل کا بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو اسرائیل کوتسلیم کرنے کا پیغآم

 

 

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی جڑیں 1947 کے یو این کے اس اجلاس میں پیوستہ ہیں جب وزیر خارجہ سرظفراللہ خان نے اعلان بالفور((Balfour Declaration کو فلسطینیوں کے حق میں غیر منصفانہ قرار دے کر رد کر دیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش 1947ء میں اس وقت کی گئی جب اسرائیل کے اولین وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے ایک تار قائدا عظم محمد علی جناحؒ کو روانہ کیا تاہم اس تار کا کوئی جواب نہیں دیا ۔

 

 

اسرائیل کو تسلیم کر لے لیکن قائد اعظم نے اس پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ 1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی، قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ میں برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ فلسطین کے عربوں کے خلاف جو سازش ہورہی ہے اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ہندوستان کے مسلمان کسی صورت میں فلسطینیوں پر فوجی بل پر کوئی فیصلہ قبول نہیں

 

 

 

https://besacenter.org/perspectives-papers/israel-pakistan-relations-rumors/

 

 

 

پھر اپریل 1948 میں ظفراللہ خان نے نیو یارک میں اسرائیل کے سابق صدر وائز مین سے ملاقات جس کے بعد ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ابا ایبان سے ملاقات کی جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر بات چیت ہوئی۔

 

 

یہ غالباً1950 کی بات ہے جب اسرائیل نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی کہ وہ افغانستان میں موجود چند سو یہودیوں کو بھارت لے جانا چاہتے ہیں اس کے لیے اسے پاکستان کی سرزمین سے گزرنے دیا جائے تا کہ یہ لوگ اسرائیل میں جا کر آباد ہو سکیں۔ پاکستان کی حکومت نے گزرگاہ کا پروانہ دینے سے انکار کر دیا بعد میں یہ یہودی پاکستان کے ایک ہمسایہ ملک کے راستےاسرائیل پہنچے

 

 

https://www.jstor.org/stable/25834754?seq=1

 

 

 

جنوری 1953 میں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان جنہوں نے 1947 میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے خلاف معرکتہ الاراء تقریر کی تھی اور سارے عالم اسلام کے دل موہ لیے تھے، اس منصوبے کی منظوری کے بعد دمشق میں ایک مشہور مستشرق یوریل میڈ سے ملاقات کی تھی جو اس زمانہ میں اسرائیل کی خفیہ سروس کے لیے کام کر رہے تھے۔ یوریل ہیڈ نے اپنی یادداشتوں میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اس ملاقات میں ظفر اللہ خان نے یہ اعتراف کیا تھا کہ فلسطین کی تقسیم ہی اس مسئلہ کا بہترین حل ہے

 

 

1957 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب شتابل روزینہ سے کھانے پر ملاقات کی تھی اور بقول شتابل روزینہ اس ملاقات میں مرحوم بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے کیونکہ اسرائیل اب ایک حقیقت ہے۔

اسرائیلی حکام اورمیڈیا ساتھ ہی امریکی حکام یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ 1993 میں بینظیر بھٹو کے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے دوران پاک فوج کے ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے ملٹری آپریشن (ڈی جی ایم او) ، میجر جنرل پرویز مشرف کو بھٹو نے اس سرکاری دورے اپنے ساتھ لیا تھا ۔

 

 

یہ بات بھی بڑی عجیب معلوم ہوتی تھی کہ پالیسی کے مطابق غیر معمولی اور غیر روایتی طور پر یہ اس سفر میں شامل ہونے کے لئے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ملٹری آپریشنزکوجانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا ،خود وہ واشنگٹن روانہ ہوگئے اوراس وقت کے میجرجنرل پرویز مشرف کوبےنظیر کے ساتھ بھیج دیا

 

 

https://www.files.ethz.ch/isn/94527/2000-03_(FILE)1190278291.pdf

امریکی مڈیا اورحکام کے مطابق بے نظیر بھٹو اور ان کے ڈی جی ایم او نے 1993 میں اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ خفیہ ملاقات کی تھی ، جو خاص طور پر واشنگٹن روانہ ہوئے تھے۔ . ان کی رہنمائی میں ، جنرل مشرف نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ آئی ایس آئی کے بیک ڈوررابطوں‌ کومظبوط کرنے کی کوشش کی

 

 

انہیں رابطوں کے بارے میں امریکی اوراسرائیلی فوجی حکام نے بعد میں انکشاف کیا کہ جنرل پرویز مشرف نے اس دوران اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی صلاحیتوں‌کومانیٹرکرنے کی کامیاب کوشش کی

 

اسرائیلی حکام کا یہ بھی دعویٰ‌ہے کہ بالآخر اسرائیلی اور بے نظیر کے درمیان ملاقات 1995 میں ہوئی تھی ، اور جنرل مشرف بھی بینظیر بھٹو کے ساتھ اس میٹنگ میں شامل ہو گئے تھے جب انہوں نے جنرل مشرف کو فوری طور پر نیویارک کے ہوائی ڈیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

 

نواز شریف کے دور میں ان کے صدر رفیق تارڑ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ جب اکتوبر 1998 میں وہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے دورے پر تھے تو انہوں نے ایک استقبالیہ میں اسرائیل کے صدر وائز مین سے ہاتھ ملا کر کہا تھا کہ ’’آپ امن کے آدمی ہیں اور آپ سے ملاقات ایک بڑا اعزاز ہے‘‘۔

 

https://www.haaretz.com/israel-news/.premium-is-pakistan-preparing-to-recognize-israel-1.7773360

 

یہ بھی کہا گیا کہ لندن میں ان ملاقاتوں کے حوالے سے 15 اکتوبر 1992 کو ریڈیو پاکستان نے بھی خبر بریک کی تھی تاہم اس پرتوجہ نہ دی گئی:

 

اکتوبر 1995 میں وزیر اعظم محترمہ بھٹو نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ "گولن کی پہاڑیوں اور یروشلم کی حیثیت کے بنیادی مسائل ابھی حل نہیں ہوئے تھے اور بے نظیر کے اس انکارکے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کردار نظرآتا ہے

یہ صرف محترمہ بھٹو ہی نہیں تھیں بلکہ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ بہت سارے سیاسی بنیادوں پر رابطے قائم کررکھے تھے، ان رابطوں کی نوعیت سرکاری حیثیت سے کم جبکہ ذاتی حیثیت سے زیادہ تھی ۔

ٹائمز میگزین کے مطابق ڈینیل پرل جو ایک امریکی یہودی صحافی تھا،کو طالبان کے تعلقات کی جاسوسی کے شبہ میں قتل کر دیا گیاجبکہ بعض ماہرین کے مطابق ڈینیل کا قتل اس کے موساد ایجنٹ ہونے کی وجہ سے ہوا

ملاقات کے اختتام پر ، دونوں نے اتفاق کیا کہ لندن میں پاکستان کے سفیر (ہائی کمشنر) کے توسط سے ان کے مابین مزید رابطوں کا اہتمام کیا جائے گا۔

16 مارچ 1993 کو اسرائیل کے نائب قونصل جنرل مارک سوفر ذکی نے ڈیووس میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور اسرائیلی وزیر خارجہ شمون پیرس کے مابین ملاقات کا بندوبست کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس وقت یہ منصوبہ اس وقت تک ناکام ہوگیا تھا جب شہر میں متعدد پاکستانی صحافی موجود تھے۔ .

ایک پاکستانی اخبار نے انکشاف کیا کہ 1993 میں پوسٹل کنکشن تیسرے ملک کے توسط سے قائم ہوا تھا ، اسرائیلی پوسٹل ڈاک ٹکٹوں کی جگہ مصری ٹکٹوں میں تبدیل کردی گئی تھی اور پھر وہ تمام خطوط کراچی بھیجے گئے تھے اور کراچی سے یہ خطوط اسلام آباد بھیجے گئے تھے۔ پاکستان سے اسرائیل اور خطوں کو خطوط دو لفافوں میں لندن کے راستے بھیجے گئے تھے۔ لندن میں پوسٹل منیجر کا پتہ بیرونی خط پر ظاہر ہوا ، خط کے وصول کنندہ کا پتہ اندرونی خط پر۔

ایک اسرائیلی عبرانی اخبار ماغریو کی بین بین کیپیٹ نے 1997 میں انکشاف کیا ہے کہ:6 فروری 1996 کو۔ پاکستانی میڈیا کے آٹھ صحافی اسرائیل تشریف لائے۔ یہ پاکستانی میڈیا کا پہلا دورہ تھا۔ اگرچہ انہوں نے مزید دعوی کیا کہ یہ صحافی سرکاری وفد کے طور پر نہیں آئے تھے ، لیکن پردے کے پیچھے ایک پاکستانی سیاسی اداکار تھا جس نے اس دورے کا اہتمام کیا تھا۔ پاکستانی سیاسی لی

ایسے اشارے ملے ہیں کہ اپنے پہلے عہدے کے دورِ حکومت (1990-93) کے دوران وزیر اعظم نواز شریف اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی اور یہاں تک کہ تسلیم اور معمول پر لانے کے بارے میں غور کرنے کے خواہاں تھے۔

امریکی حکام اوراسرائیلی حکام اوران دونوں ملکوں‌کا میڈیا یہ بھی دعویٰ‌کرتا ہے کہ ان دنوں‌نواز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد جمعیت علمائے اسلام کے سرپرست مولانا اجمل قادری نے اسرائیل کا دورہ کیا۔یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ یہ ملاقات میاں نوازشریف کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ تھی،

اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ وطن واپسی پر "فلسطین کے وسیع تر مفاد میں”مولانا اجمل قادری نے پاکستانی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے وزیر اعظم کو دورے کی ساری تفصیلات سے آگاہ بھی کیا

اس دوران نواز شریف کی ہدایت کے مطابق مولانا اجمل قادری نے یہ بیانیہ داغ دیا کہ پاکستان کو کسی اور کی جنگ نہیں لڑنی چاہئے (اس کا اشارہ فلسطینی تنظیموں کی طرف تھا)

اس بات کی تصدیق اسرائیلی اخبار ماغاریونے تصدیق کی اوردعویٰ کیا کہ:وزیر اعظم کے دفتر کی خصوصی اجازت سے ایک مذہبی وفد اسرائیل گیا اور اس نے چھ دن ریاست میں گزارے۔

اگست 1997 میں اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی کہ پاکستان کے مذہبی رہنماؤں کے وفد نے ایک ہفتہ اسرائیل میں گزارا۔ اسلامی مقدس مقامات کا دورہ کرنے کے علاوہ انہوں نے وزارت خارجہ کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کی اور پاکستان سے اسلامی سیاحت کو فروغ دینے کے خیال کی تائید کی۔

اسرائیلی اخبار نے مزید دعویٰ کیا کہ ان دنوں‌وزیر اعظم نواز شریف کے اس وقت کے سینئر معاون صدیق الفاروق نے 29 ستمبر 1997 کو دی مسلم میں ایک انٹرویو دیا ، جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ یہودی ریاست کو تسلیم کرنے سے پاکستان کوکوئی نقصان نہیں ہوگا

اسرائیلی اخباریہ بھی دعویٰ‌کرتا ہے کہ نوازشریف نے اس سلسلے میں بہت زیادہ کوششیں کیں ،اخباردعویٰ کرتا ہے کہ اسرائیل نے انہیں بیانات کوبنیاد بنا کرپاکستان کی طرف تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے سلسلہ آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہارکیا

اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیل کے اعتراف میں پاکستان آگے بڑھنے کے لئے تیار تھا۔ پاکستانی سفارتی عہدیداروں نے دنیا کے مختلف حصوں میں اسرائیلی وفود سے ملاقاتیں کیں‌۔

دونوں ممالک انقرہ اور استنبول کے قونصل خانوں کو باہمی معلومات کے تبادلے کے لیے بھی استعمال کرتےرہے۔ 1992 میں امریکا میں تعینات پاکستان کی سفیر عابدہ حسین نےکہا کہ ا گر فلسطین اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے پاکستان مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1998ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے اسرائیلی ہم منصب بنیامین نیتن یاہو کو ایک خفیہ خط لکھا جس میں یقین دہائی کروائی گئی کہ پاکستان اپنا جوہری پروگرام کو ایران کے ساتھ اس کے نیوکلیر پروگرام کی مدد کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔

اسرائیلی حکام اوراسرائیلی میڈیا نے کچھ سال قبل ان دنوں کی ملاقاتوں کا پھرسے تذکرہ کیا ، اسرائیلی میڈیا کہتا ہے کہ اسرائیلی سفارت کاروں نے نہ صرف پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقات کی بلکہ اپنے غیر ملکی پاسپورٹ کے ساتھ پاکستان کا دورہ بھی کیا اور ان کے پورے دورے دونوں ممالک کے مابین قریبی اور کھلے سیاسی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لئے تھے۔ اسرائیل نے کبھی بھی پاکستان سے خلا کو پُر کرنے کا کوئی بنیادی موقع نہیں چھوڑا۔

معروف یہودی تنظیمیں بھی ان تعلقات کو قائم کرنے کے خواہاں تھیں اور دونوں ممالک کے پرامن تعلقات کو مستحکم کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔ 1993 میں ، امریکی یہودی کمیٹی کے نمائندے نے واشنگٹن اور امریکہ میں پاکستان کے سفیروں سے ملاقات کی ،

عالمی یہودی تنظیم کے نائب صدر مسٹر عیسی لیبلر نے 12 سے 16 فروری تک اسلام آباد ، پاکستان کا دورہ کیا اور وزارت خارجہ اسرائیل ، آسٹریلیا اور امریکی محکمہ خارجہ نے اس دورے کو مربوط کیا۔ مسٹر لیبلر نے ایک پاکستانی سیاستدان ، وزیر اعلی شہباز شریف ، وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے بھی ملاقات کی اور اس ملاقات کا اہتمام پاکستانی سفیر سیدی عابدہ حسین نے کیا۔

2005 میں استنبول میں پاکستان اور اسرائیل کے وزرائِ خارجہ کے درمیان پہلی بارکھلم کھلا ملاقات ہوئی جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر غور کیا گیا تھا

اس سلسلے میں سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کہتے ہیں‌کہ جب وہ ترکی کے دورے پرتھے تواس وقت ترک صدر نے ان کی ملاقات اسرائیلی وزیرخارجہ سے کروائی تھی یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی

 

 

 

 

اس کے بعد 2005 میں امریکی حکام اوراسرائیلی میڈیا نے اپنے دفاعی حکام کے حوالے سے یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان واپسی سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے اپنی حفاظت کی گارنٹی مانگی۔ عبرانی روزنامہ "مااریف” نے اس وقت یہ دعویٰ کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ، سی آئی اے اور برطانیہ کے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے کہا تھا کہ وہ ان کی حفاظت میں مدد کریں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی (پی پی پی) اعلی قیادت نے نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی ، اور پھر تل ابیب کا دورہ کیا۔ 07 مئی 2006 کو ، بینظیر بھٹو نے نیو یارک کے ایک مہنگے ہوٹل میں اسرائیل کی اعلی شخصیت کی سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس رات ہوٹل پوری طرح سے بک ہوا تھا اور یہ بل براہ راست بے نظیر بھٹو نے ادا کیا تھا۔ اس پارٹی میں شرکت کے لئے اعلی سیاسی شخصیات نے واشنگٹن ڈی سی اور تل ابیب سے سفر کیا۔

وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے یروشلم پوسٹ کو بتایا کہ دو ماہ قبل پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو لندن میں رک گئی تھیں اس دوران انہوں نے یہ پیغام دیا تھا کہ وہ مستقبل میں اسرائیل اور پاکستان کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیں گی۔

بعد میں بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اس وقت کے اسرائیلی صدر شمعون پیریز سے متعدد بار ملاقات کی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے تعلقات میں آگے بڑھنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ محترمہ بھٹو نے شمعون سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں واپس آنے پر اسرائیل کا دورہ کریں گی۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈین گیلرمین نے اسرائیل کے روزنامہ یدیوٹ اچارونوٹ سے وابستہ ایک آن لائن اسرائیلی نیوز سائٹ ینیٹ کو بتایا:

اس کے بعد جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے تب سےیہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ پاکستان اسرائیل کوتسلیم کرنا والا ہے لیکن ایسا نہیں ہے عمران خان نےپہلےدن سے یہ موقف اپنایا تھا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کوتسلیم نہیں کرے گا

چند مہنے قبل اسلام آباد میں اسرائیلی طیارے کی اترنےکی جھوٹی خبروں کوبنیاد بناکرپہت بڑی پراپیگنڈے مہم شروع کی گئی ، اس کےبعد باقاعدہ ایک سلسلہ شروع ہوگیا

پاکستان اپنے عرب مسلم برادر ملکوں‌ کی خاطر اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کرنے کا بار بار اعلا ن کرچکا ہے ، لیکن جن کی خاطر پاکستان نے اعلان کیا وہ اسرائیل کوتسلیم کرچکے ، جن کی خاطرپاکستان ڈٹا رہا وہ بک گئے ،

چند ہفتوں‌سے عرب امارات ، بحرین اورپھر سوڈان کی طرف سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعد پاکستان کے حوالے سے بھی خبریں‌گردش کررہی تھیں ، لیکن پاکستان نے پھراپنا موقف دہرایا

اس دوران سعودی عرب نے پاکستان کواسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے اپنے دباو میں لانے کی کوشش کی جسے پاکستانی حکومت نے مسترد کردیا

سعودی عرب نے پاکستان پراحسانات جتانے کی بھی کوشش کی لیکن پاکستان نے ان احسناتات کوواپس کرنے کا عہد کرلیا ہے اورسعودی عرب پرواضح کردیا ہے کہ پاکستان اپنے نظرے پرقائم ہے اوراسرائیل کوکبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا

ان بیک ڈوررابطوں پرعالمی حالات کے تناظراوراسرائیل عرب تعلقات پرنظررکھنے والوں کے دعووں کوبنیاد بنا کرپاکستان کے معروف صحافی مبشرلقمان نے انہیں خبروں کواپنے انداز سے بیان کیا ہے جس پرپاکستان کے کچھ نام نہاد صحافی اسے بہتان قرار دے رہے ہیں ، اس رپورٹ میں ان تمام حقائق کو پیش کیا گیا ہے جو امریکہ اوراسرائیلی میڈیا اورسرکاری حکام دعویٰ کرچکے ہیں

 

 

1. Ha’aretz, 30 June 2003

2. The Dawn, 31 March 2002

3. It is not accidental that one of the first books on Pakistani foreign policy was M. Ahmad’s Pakistan and the Middle East, Karachi, 1948.

4. Eliyahu Elath to Walter Eytan, 8 September 1953, Israel State Archives (Jerusalem), Ministry of Foreign Affairs, file no. 2413/29.

5. Moonis Ahmar, ‘Pakistan and Israel – Distant Adversaries or Neighbours’, Journal of South Asian and Middle Eastern Studies, Vol. 20, No. 1 (Fall, 1996), p. 20

6. For a serious and interesting study on this see T.G. Fraser, Partition in Ireland, India and Palestine: Theory and Practice, New York, 1984

7. One such lucid memorandum was written by Zionist emissary Jacob Robinson, ‘Partition of India: Implications for Palestine’, Central Zionist Archives, S25/9029. This undated memorandum was written between 9 July and 15 August 1947.

8. Jinnah’s presidential speech at Allahabad in April 1942, quoted in Foundations of Pakistan, Vol. 2, p. 388.

9. S.M. Burke Pakistan’s Foreign Policy: An Historical Analysis, London, 1973, p. 138

10. Farzana Shaikh, ‘Muslims and Political Representation in Colonial India: The Making of Pakistan’, Modern Asian Studies, Vol. 20, No.3 (July 1986), p. 550.

11. Menachem Friedman, ‘The Ultra-Orthodox and Israeli society’, in Keith Kyle and Joel Peters (eds.), Whither Israel? The Domestic Challenges, London, 1993, p. 185.

12. For detailed comparisons see P.R. Kumaraswamy, ‘The Strange Parallel Careers of Israel and Pakistan’, Middle East Quarterly, Vol. 4, No. 2 (June 1997), pp. 31–39; and ‘Israel and Pakistan: Strange Bedfellows or Natural Allies’, Strategic Analysis, Vol. 23, No. 6 (September 1999), pp. 873–893.

13. Quoted in Hector Bolitho, Jinnah, Creator of Pakistan, London, 1960, p. 197

14. Burke, Pakistan’s Foreign Policy, p. 65

15. A detailed, yet somewhat repetitive, discussion can be found in Rashid Ahmad Khan, Pakistan’s Policy towards the Arab–Israel Conflict, Karachi, 1995.

16. In the pre-partition era, the external interests and involvement of the Muslim League were confined only to Arab and Islamic causes, with the Palestinian question occupying the prime position.

17. See S.S. Pirzada, Foundations of Pakistan: All India Muslim League Documents, 1906–1947, Karachi, 1970, Vol. 2, pp. 225–226.

18. Maqsudul Hasan Nuri, ‘The Indo-Israeli Nexus’, Regional Studies, Vol. 12, No. 3 (Summer 1994), pp.

19. Journalist-turned-politician Mushahid Hussain attributes this tendency to regime changes in Pakistan brought about ‘through conspiracy hatched by small, power hungry coteries’. Mushahid Hussain, Pakistan’s Politics: The Zia Years, New Delhi, 1991, p. 34

20. It is essential to remember that such conspiracy theories are not confined to orthodox ulema, vernacular media or minor political figures. Conspiracy theories are the pastime of the mainstream press as well as some of the leading political figures in Pakistan. Among others see, Ghani Jafar, ‘”Soul Mates” Coming Together: The Brahminic–Talmudic Alliance’, Regional Studies, Vol. 20, No. 2 (Spring 2002), pp. 3–65; Khalil Qureshi, ‘Indo-Israeli Tie Against Muslims’, The Frontier Post, 5 May 1992, in JPRS-NEA-92-080, 23 June 1992, pp. 4–5; Hazoor Ahmad Shah, ‘The Hindu–Zionist Collusion: A Potential Threat to Ummah’, The Pakistan Times, 21 May 1993, in JPRS-NEA-93-083, 21 July 1993, pp. 30–31; ‘Close Military Cooperation between India and Israel’, Editorial, Jang, 18 May 1993, in JPRS-NEA-93-083, 21 July 1993, p.40; ‘A Disturbing Development’, Editorial, The Frontier Post, 1 January 1997, in FBIS-NES-97-001, 1 January 1997; Khalilul Rehman, ‘Growing of the Nexus’, The Frontier Post, 17 January 1997; ‘Pak–Iran Relations: Beyond Hiccups’, The Muslim, 24 January 1997, in FBIS-NES-97-017, 24 January 1997; ‘Indo-Israeli Nexus’, The Frontier Post, 4 May 1997, in FBIS-NES-97-125, 5 May 1997; and ‘The Axis of Americanism, Hinduism and Zionism’, Editorial, The Muslim, 12 October 1997, in FBIS-NES-97-287, 14 October 1997.

21. P.R. Kumaraswamy, Beyond the Veil: Israel–Pakistan RelationsJaffee Center for Strategic Studies Memorandum 55, Tel Aviv, 2000, pp. 30–42

22. Anees Jillani, ‘Pakistan and CENTO: An Historical Analysis’, Journal of South Asian and Middle Eastern Studies, Vol. 15, No. 1 (Fall 1991), pp. 40–53.

23. At one point Nasser even remarked: ‘Suez is as dear to Egypt as Kashmir is to India’, quoted in Burke, Pakistan’s Foreign Policy, p. 204.

24. Quoted in Khan, Pakistan’s Policy towards the Arab–Israeli Conflict, p. 166

25. Salayman S. Nyang, ‘Pakistan’s Role in the Organisation of Islamic Conference’, Journal of South Asian and Middle Eastern Studies, Vol. 7, No. 3 (Spring 1984), pp. 14–33; S.S. Pirzada, ‘Pakistan and OIC’, Pakistan Horizon, Vol. 40, No. 2 (April 1987), pp. 14–38.

26. Khan, Pakistan’s Policy towards the Arab–Israeli Conflict, p. 255. Even though Pakistan has vehemently denied any active involvement in the crackdown, King Hussein personally decorated Zia for ‘his services’ to the Hashemite Kingdom. Tariq Ali, Can Pakistan Survive? Death of a State, London, 1983, p. 224n; and Mehtab Ali Shah, The Foreign Policy of Pakistan: Ethnic Impacts on Diplomacy, 1971–1994, London, 1997, p. 27.

27. Sabina Hasan, ‘The Casablanca Islamic Summit’, Pakistan Horizon, Vol. 37, No. 1 (January 1984), pp. 78–80.

28. Aide-Mémoire by the Ambassador of Israel in Washington, 3 March 1952, Israel State Archives, Ministry of Foreign Affairs, File No. 2401/1.

29. See Summary of the meeting in Documents on the Foreign Policy of Israel, 1953 (Jerusalem: Israel State Archives, 1980ff), Vol. 8, pp. 26–28 and Companion Volume 8, pp. 17–18.

30. When asked whether Pakistan was about to recognize Israel, he said: ‘You are intelligent. You can draw your own conclusion’. Quoted in Khan, Pakistan’s Policy towards the Arab–Israeli Conflict, p.159n.

31. The Jerusalem Post, 16 March 1986. A few years earlier, he remarked that both Pakistan and Israel are ‘ideological states’ that are sustained by Islam and Judaism respectively. The Economist, 12 December 1981.

32. For example in late 1949 Israel’s ambassador in Washington Abba Eban observed: ‘the Pakistani representative at the UN was scheming to embarrass India by bringing his government to recognise Israel before India did’. Moshe Sharett to M. Namir, d. 25 October 1949, Documents on the Foreign Policy of Israel, 1949 (Jerusalem: 1980ff), Companion Volume 4, p. 224.

33. An Israeli diplomat posted in the US, for example, informed Foreign Minister Moshe Sharett that if the US Administration ‘now intends to spread military butter over the bread of Arabs it will have to be spread very thin. You will remember that 30 million [dollars] includes Pakistan and Israel’, David Goitein to Moshe Sharett, 31 July 1953, Documents on the Foreign Policy of Israel, 1953, Vol. 8, p. 553. See also ibid., p. 549 and Abba Eban to Moshe Sharett, 6 August 1953, ibid., pp. 571–572.

34. The News, 14 September 1995, in FBIS-NES-95-179, 15 September 1995, pp. 84–85.

35. This period coincided with the Afghan crisis when both Israel and Pakistan were reportedly helping the Afghan mujahedin against the Soviet army.

36. P.R. Kumaraswamy, ‘India and Israel: Prelude to Normalisation’, Journal of South Asian and Middle Eastern Studies, Vol. 19, No. 2 (Winter 1995), pp. 62–64.

37. Among others see, Gerald Steinberg, ‘A Pakistani and not “Islamic Bomb”‘, Yedioth Ahronoth, 29 May 1998; and Shai Feldman, ‘The Nuclear Test in South Asia: Implications for the Middle East’, Strategic Assessment, Tel Aviv, No. 2, July 1998, pp. 7–9.

38. Benazir Bhutto’s interview to Yedioth Ahronoth, Sheva Yamim Weekend supplement, 19 January 1996, pp. 44–45.

39. Zaigham Khan, ‘Shalom Maulvi’, The Herald, July 1997, p. 19. See also, The Muslim, 29 September 1997, FBIS-NES-97-273, 30 September 1997; and Ma’ariv, 12 August 1997, in FBIS-NES-97-224, 12 August 1997.

40. Benazir Bhutto’s interview to Yedioth Ahronoth.

41. See Israrul Haque, ‘Why We Should Not Recognise Israel?’, The Nation, 24 October 1997; and ‘Let Us See Rabin in his True Colours’, Editorial, The Muslim, 6 November 1995, in FBIS-NES-95-215S, 7 November 1995, pp. 13–14.

42. Ahmar, ‘Pakistan and Israel – Distant Adversaries or Neighbours’, p. 20.

Leave a reply