سفارتخانوں کی کاکردگی،وزیراعظم کی طرف سے بھارتی سفیروں کی کاکردگی کی تعریف،ایشوبن گیا

0
30

سفارتخانوں کی کاکردگی،وزیراعظم کی طرف سے بھارتی سفیروں کی کاکردگی کی تعریف،اہم موضوع بن گیا ،اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں سے ویڈیوخطاب کے دوران بھارتی سفارتخانوں کے عملے کی تعریف بھی ایک ایشو بن کررہ گیا ہے

 

وزیراعظم نے اس موقع کہا تھا کہ پاکستانی قوم ایک بہترین قوم ہے اوراس پربہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں خاص کران پرجن کوذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں

 

وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی سفیروں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ تمام تروسائل کے باوجود اگرپاکستانی سفیرسمندرپارپاکستانیوں کی خیروعافیت نہیں پوچھیں گے ، ان کے مسائل حل نہیں کریں گے ان کا خیال نہیں‌رکھیں گے توپھراس قدرسفارتی عملے کا کیا فائدہ جن کے اخراجات کو بوجھ قوم اٹھا رہی ہے

 

وزیراعظم نے اس موقع پرکہا تھا کہ بھارتی سفارتخانے دنیا بھرمیں اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود کےلیے بڑا کام کرتے ہیں ،ان کے دکھ درد میں شریک ہوتےہیں اورکسی بھی ہندوستانی کوکوئی تکلیف پہنچے تواس کے سرپرکھڑے ہوتے ہیں کاش پاکستانی سفارتخانے ایسا عمل کرتے

وزیراعظم کے ان الفاظ نے بڑی اہمیت اختیارکرلی ہے اوربھارتی سینئرتجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ایک خوبی یہ ضرور ہے کہ وہ لگی لپٹی بات نہیں کرتے بلکہ وہ کرتے ہیں جس کی ضرورت ہوتی ہے

کسی نے یہ کہا ہےکہ وزیراعظم نے یہ تسلیم کرلیا ہےکہ بھارتی سفارتخانے دنیا بھرمیں پاکستانی سفارتخانوں سے بہتر کام کررہے ہیں

یاد رہےکہ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا بھر کے پاکستانی سفارت خانوں میں پاکستانیوں سے خراب رویے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انگریزوں کا پرانا نو آبادیاتی نظام تو اس طرح چل سکتا ہے لیکن موجودہ پاکستان میں یہ نظام نہیں چل سکتا۔

 

دنیا بھر میں تعینات پاکستانی سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے وہ اس جانب اتنی توجہ نہیں دے پائے جتنی انہیں دینی چاہیے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وزارت خارجہ کو رہنمائی دی کہ ہم نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے کیا کیا چیزیں کرنی ہیں کیونکہ وہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہیں اور ان کی وجہ سے ہی پاکستان اب تک چل رہا ہے نیز اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی وجہ سے ہی ہمارا ملک اب تک دیوالیہ نہیں ہوا۔

وزیر اعظم عمران خان نے سفیروں سے ایک ایسے وقت میں خطاب کیا جب کچھ روز قبل ہی ان کے دفتر نے ریاض میں پاکستانی سفارتخانے کے خلاف باضابطہ انکوائری کا آغاز کیا تھا۔

اس کے علاوہ سعودی عرب میں سبکدوش ہونے والے سفیر کو معطل کردیا گیا تھا اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کارکنوں کی جانب سے بدسلوکی کی شکایات سامنے آنے کے بعد سفارتی مشن کے عملے کے کئی ارکان کو واپس بلا لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پڑھے لکھے لوگوں سے ہمارے سفارتخانوں کا رویہ اچھا رہتا ہے لیکن نچلے طبقے کو ہمیشہ بڑے مسائل کا سامنا رہا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے سعودی عرب سے ڈیڑھ سال سے ہمارے محنت کش لوگوں کی شکایات آ رہی تھیں کہ سفارتخانہ کوئی جواب نہیں دیتا اور اس کے بعد ایک دو واقعات ہوئے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ میرا جن پاکستانیوں سے زیادہ رابطہ رہا ہے ان سے میں نے کہا کہ مجھے سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے حوالے سے رائے دیں تو انہوں نے جو رائے دی اس سے بہت بڑا دھچکا لگا۔

انہوں نے کہا کہ شکایات اس بات کی شاہد ہیں کہ ہمارے سفارتخانے اپنے سمندر پار پاکستانیوں سے نوآبادیاتی دور والا رویہ اپناتے ہیں لیکن اس طرح ہم نہیں چل سکتے۔

اس موقعے پر وزیراعظم نے بھارتی سفارتخانے کے عملے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے برعکس بھارت کے سفارتخانے اپنے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے بہت زیادہ متحرک ہیں۔

وزیراعظم نے سٹیزن پورٹل پر سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے درج کی گئی شکایات بھی پڑھ کر سنائیں۔

انہوں نے سفارتخانوں میں سمندر پار پاکستانیوں کو درپیش مسائل کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مستقل نشاندہی کے باوجود ان کے مستقل حل کے لیے کوئی پالیسی اقدامات نہیں کیے گئے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستانی سفارتخانوں کی جانب سے شکایات کے ازالے کی بجائے روایتی جواب دیا جاتا ہے لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے سفیروں کا رویہ بہتر رہے لیکن بدقسمتی سے پاکستانی سفارتخانوں کا اپنے شہریوں سے رویہ ناروا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ شکایات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے موصول ہوئیں جہاں سے پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات زر آتی ہے۔

انہوں نے قیدیوں کے معاملے کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غیرملکی جیلوں میں موجود ہمارے لوگوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے، ہم اس کے لیے فنڈ بنانے کے لیے تیار ہیں اور جتنے پر چھوٹے موٹے جرمانے ہیں، تو ہم ان کے جرمانے ادا کر سکتے ہیں۔

Leave a reply